بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - Al-Insaan : 1
هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْئًا مَّذْكُوْرًا
هَلْ اَتٰى : یقیناً آیا (گزرا) عَلَي : پر الْاِنْسَانِ : انسان حِيْنٌ : ایک وقت مِّنَ الدَّهْرِ : زمانہ کا لَمْ يَكُنْ : اور نہ تھا شَيْئًا : کچھ مَّذْكُوْرًا : قابل ذکر
ضرور انسان پر ایک ایسا زمانہ بھی آیا ہے کہ اس کا کہیں کچھ بھی ذکر نہ تھا
ترکیب : ھل ھنا عناالقراء والکسائی وسیبویہ وابوعبیدہ بمعنی قد کمافی قولہ ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وکقولہ (علیہ السلام) ھل بلغت۔ وقال مکی بمعنی الاستفہام التقریری والاول اقوٰی من الدھر بیان لحین اوصفۃ لم یکن الخ محلہ النصب علی الحال من الانسان وقیل محلہ الرفع علی انہ صفۃ لحین امشاج بدل اوصفۃ من نطفۃ قیلھی جمع مشج او مشیج کعدل و شریف جمعھا اعدال و اشراف۔ والمشج فی اللغۃ الخلط یقال مشج یمشج مشجا اذاخلط انما وقع الجمع صفۃ لمفردلانہ فی معنی الجمع لان النطفۃ ماخوذۃ من اشیاء مختلفۃ اوجعل کل جزء من النطفۃ نطفۃ والمراد نطفۃ الرجل ونطفۃ المراۃ۔ وقال صاحب الکشاف الامشاج لفظ مفرو و لیس بجمع بدلیل انہ دقع صفۃ للمفردو نظیرہ مرتبۃ اشعار ای قطع مکسرۃ وثوب اخلاق۔ نبتلیہ فی موضع الحال ای خلقناہ مبتلین لہ یعنی مریدین ابتلائـہ۔ فاماشاکراً ورماکفورا فی انتصابھما اقوال الاول شاکراوکفورا حالان من الہاء فے ہدیناہ السبیل اے ہدیناہ السبیل حالتے کونہ شاکرا وکفورا (والثانی) انتصابھا باضمار کان و التقدیر سواء کان شاکرا او کان کفورا (الثالث) معناہ انا ھدیناہ السبیل لیکون اما شاکرا واما کفورا واماعلی ھذا القول کقول القائل قد نصحت لک ان شئت فاقبل و ان شئت فاترک (والقول الرابع) ھوا لمطابق لمذہب اھل السنۃ ان تکون امافی ھذہ الآیۃ کا نافی قولہ امایعذبھم وامایتوب علیھم۔ والتقدیر انا ھدیناہ السبیل ثم جعلناہ تارۃ شاکرا وتارۃ کافرا۔ اما عند الجمہور بکسر الھمزہ فھی عندالکوفیین کماحکاہ مکی ان شرطیۃ زیدت بعدھا ماللتاکید ای بینالہ الطریق ان شکروان کفر۔ واختارہ الفراء ولایجوز عندالبصریین لان ان الشرطیۃ لا تدخل علی الاسماء الاان یقدر بعدھا فعل ولایصح ھھنا اضمار الفعل لانہ لایلزم رفع شاکرا وکفورا۔ فتاتل وقرأ ابوالسماک وابوالعجاج بالفتح فعلیٰ ھذا فھی اما عاطفۃ فی نعۃ بعض العرب اوھی التنصیلیہ۔ جو ابھا مقد سلاسل عندالبعض منصرف لان مثل ھذہ الجموع تشبیہ الاحادلانھم قالواصواحبات یوسف فلما جمعوہ جمع الاحاد المنصرفۃ جعلوھا فی حکمھا فصر فوھاد عندالبعض غیرمنصرف لکونہ صیغۃ منتہٰی الجموع والسلاسل جمع سلسلۃ والاغلال جمع غل واما الحاق الالف فی الوقف فھوکالحاقھا فی قولہٰ الظنونا والرسوا ولا الابرار فی الصحاح جع البرالابرار و جمع البار البرارۃ کان مزاجھا کافورا الجملۃ فی محل جرصفۃ لکاسٍ عینا ان قلت الکافوراسم النھر فی الجنۃ کان عینا بدلامنہ وان شئت قلت نصہ علی الاختصاص والتقدیر واعنی عینا وان قلت الکافور علی معناوالمستمعل فیہ فکان عیناً بدلاً من محل کاس علی حذف مضاف کانہ قیل یشربون خمراخمرعین ثم حذف المضاف و اقیم المضاف الیہ مقامہ وقیل نصب عینا باضمار فعل یفسرہ مابعدہ ای یشربون عینا یشرب بھا الجملۃ صفۃ لعینا وقیل الباء زائدۃ وقیل یشرب بمعنی یتلذذبفجرونھا صفۃ اخریٰ لعینا۔ تفسیر : اس سورة کا نام اسی کے الفاظ کی وجہ سے سورة دہر اور سورة انسان اور سورة ھل اتیٰ اور سورة امشاج بھی ہے۔ اس کے نزول میں علماء کا اختلاف ہے۔ ابن عباس اور ابن زبیر ؓ و مقاتل و کلبی ; کہتے ہیں مکہ میں نازل ہوئی اور اسی طرف بیضاوی وزمخشری گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ مدینہ میں نازل ہوئی۔ بعض نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ انانحن نزلنا علیک القرآن تنزیلاً سے آخر تک تو قطعی مکی ہے اور باقی میں احتمال ہے کہ مدینہ میں نازل ہوئی یا مکہ میں اور آیت یوفون بالنذر جو بعض اہل بیت کرام کی مدح میں بیان کی گئی ہے اس بات کا قرینہ ہے کہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے۔ مناسبت : مناسبت اس کی پہلی سورة قیامہ سے یہ ہے کہ اس میں دو فریق کا معاملہ ذکر تھا جو قیامت میں پیش آئے گا ایک وہ کہ جن کے منہ روشن ہوں گے اور دوسرے وہ کہ جن کے منہ سیاہ ہوں گے۔ تتمہ کے طور پر اس سورة میں فریق اول کے اور بھی حالات بیان کئے گئے اور یہ بھی ہے کہ سورة قیامہ میں صرف قیامت اور نفس لوامہ کی قسم سے ابتدائِ کلام تھی یہاں قیامت پر انسان کے حادث ہونے سے استدلال ہے اور یہ بھی ہے کہ ان سورتوں میں اکثر یہی مسائل زیربحث ہیں۔ (1) خدا تعالیٰ کی توحید اور اس کی قدرت کاملہ کا ثبوت۔ (2) قیامت کا برپا ہونا اور وہاں کے حالات۔ (3) انسان کی ابتداء و انتہا اور اس کے اس جہان میں آنے کی وجہ۔ (4) انسان کے اسباب سعادت و شقاوت کہ یہ چیزیں ہیں کہ جن سے اس کو سعادت یعنی وہاں کی حیات جاودانی اور سلطنت ابدی نصیب ہوگی اور یہ وہ باتیں ہیں کہ جن کے سبب یہ شقی ہو کر جہنم کے عمیق گڑھے میں زنجیروں میں باندھ کر اوندھے منہ ہمیشہ کے لیے ڈالا جائے گا۔ پھر ان مسائل کو عجب انداز میں بیان کیا ہے اور عجب دلکش طرز سے بلالحاظ تقدیم و تاخیر یکے بعد دیگر پراثر الفاظ اور روح کو جنبش دینے والے فقرات میں بیان فرمایا ہے اور ہر ایک بحث پر دوسرے مسئلہ کا لحاظ رہا ہے یعنی اگر اس بیان اور کلام کے ایک پہلو میں ایک مسئلہ کا ثبوت ہے تو دوسرے پہلو میں دوسرے کا۔ اگر خدا پاک کسی مفسر کی روح پر وہی فیضان مصطفوی ڈالے تو وہ ان مطالب کی تفسیر کرسکتا ہے اور اسی لیے قرآن کو دریائے بےکنار کہا جاتا ہے اور اس کا ظہر بطن اور ہر حد کا مطلع بیان کیا گیا ہے۔ مطالب : سورة قیامہ میں بھی انہیں مسائل پر انہیں طرزوں میں بحث تھی۔ اس سورة میں بھی اور اس کے بعد کی سورة میں بھی علی ہذا القیاس اور اسی لیے باہم لفظی بھی بہت کچھ مناسبتیں پیدا ہیں۔ جو شخص اس رمز پر واقف ہوگا اس کو ہر قسم کی روایات سے ایک خاص شان نزول تلاش کرنے کی حاجت نہ ہوگی۔ کس لیے کہ ان مسائل کی ضرورت ہی سبب نزول ہے۔ اور آیات میں انسانی نیک و بدفطرت کا فوٹو کھینچا جایا کرتا ہے۔ عام لوگ اس کو کھینچ تان کر کے رطب ویابس روایات کے ذریعہ سے ایک شخص کا قصہ یا واقعہ بنا دیتے ہیں جس کا جس کی طرف رجحان ہوا اور جو ان کے برائی کے لیے جھنڈے پر چڑھ گیا۔ انسان کی ابتدا : فقال ھل اتیٰ علی الانسان حین من الدھرلم یکن شیئا مذکورا کہ بیشک انسان پر ایک ایسا زمانہ بھی گزر گیا ہے کہ اس کا کوئی ذکر بھی نہیں تھا۔ شیئا سے وجود فی الخارج کی نفی کردی گئی کس لیے کہ متبادرمعنی شے کہ جبکہ اس کو وجود ذہنی اور لفظی کی قیود سے مبرا رکھا جائے تو موجود فی الخارج کے ہیں اور مذکورا وجود لفظی اور ذہنی کی نفی کرتا ہے کہ انسان کا وجود نہ کسی کے ذہن میں تھا نہ کسی کی زبان پر تھا۔ اور جب اس قید کو بھی ملحوظ کر کے نفی کردی گئی تو وجود ذہنی اور وجود لفظی کی نفی دلالت مطابقی سے اور خارجی وجود کی نفی دلالت تضمنی سے سمجھی جائے گی مگر اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ علم الٰہی میں بھی انسان کا وجود نہ تھا کس لیے کہ علم الٰہی کا مرتبہ بالاتر ہے۔ حاصل یہ کہ انسان پر ایک ایسا وقت گزرا ہے کہ اس وقت نہ یہ دنیا میں موجود تھا نہ اہل دنیا میں اس کا تذکرہ تھا کوئی حضرت کے نام سے بھی واقف نہ تھا۔ دہریوں کا اعتقاد اور اس کا ابطال : اس کا ثبوت کہ نسل انسان ایک وقت دنیا پر نہ تھی اور اس کی پیدائش کی ایک ابتداء ہے اہل کتاب کے نزدیک مسلم ہے کیونکہ ان کے ہاں آفرینش انسان کا زمانہ اب تک تخمیناً سات ہزار برس کا ہے اور اس بات کا نصف دنیا سے زائد کو یقین ہے۔ اہل ہندو اہل پارس اگرچہ لاکھوں برس کی تعداد بیان کرتے ہیں مگر پھر بھی ایک ابتداء معلوم ہوتی ہے البتہ حکمائِ یونان اور دیگر فلاسفہ ہر نوع کو قدیم زمانی کہتے ہیں علی سبیل البدلیۃ اس کے افراد کو قدیم زمانی مانتے ہیں خصوصاً دہریہ۔ اس فرقہ کا یہ اعتقاد ہے کہ جو کچھ تجددات و انقلابات جہان میں ہو رہے ہیں سب گردش زمان اور اوضاع فلکیہ و تاثیرات سیارات سے ہوتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں بعض ان اوضاع میں سے رات دن میں بعض مہینے میں بعض فصل میں بعض ایک برس میں بعض قرانات میں متبدل ہوجاتے ہیں اور بعض بہت دراز زمانہ میں اکوارو ادوار کہتے ہیں اس سے انقلابات عظیمہ اور انواع مختلفہ پیدا ہوتے ہیں۔ آبادیاں جنگل اور جنگل آبادی خشکی دریا اور دریا خشک جنگل ہوجاتے ہیں اور اسی طرح بنی آدم اوردیگر انواع حیوانات پیدا ہوتے ہیں اور جو پیدا تھے مٹ جاتے ہیں اور ایک نوع بدل کر دوسری نوع بن جاتی ہے۔ انسانوں سے بندر اور بندروں سے انسان ترقی کر کے ہوجاتے ہیں۔ ان کے عقول کی حق سبحانہ ٗ کی طرف رسائی نہیں ہوتی۔ ان کے مذہب کا ابطال صرف ایک اس بات سے ہوسکتا ہے کہ نسل انسانی کا ایک زمانہ میں بالکل نہ پایا جانا حال کی تحقیقات سے ثابت ہوگیا ہے۔ حال کے محققوں نے کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیوں پر پتھروں میں سیپیاں اور گھونگھے دیکھے ہیں جس سے علم جو الجی کے واقف کاروں کو کامل یقین ہے کہ کسی زمانہ میں تمام ہندوستان سمندر کا سطح تھا اور سمندر کا پانی ان چوٹیوں کے اوپر تک تھا پھر گھٹتے گھٹتے یہ زمین کھل گئی۔ پھر جب کوہ ہمالیہ کی چوٹیاں سمندر کے پانی میں غرق تھیں تو پھر مساحت اور ارتفاع کے لحاظ سے قیاس ہوسکتا ہے کہ کوئی بھی ملک ایسا نہ تھا جو پانی سے ڈھکا ہوا نہ ہو پھر جب ایسا ہوگا تو نسل انسانی کا زمین پر قطعاً وجود نہ ہوگا اور اسی طرح سیاحوں کو اور ملکوں کے پہاڑوں پر بھی سمندر کے نشان معلوم ہوئے ہیں۔ جب یہ ثابت ہوگیا کہ نسل انسانی ایک زمانہ میں دنیا پر نہ تھی تو ثابت ہوگیا کہ ان چیزوں کا پیدا کرنا دہر اور اس کے کسی وضع کا مقتضٰی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت سے ہے 1 ؎۔ اگر یوں کہیں کہ ممکن ہے کہ اس سے پہلے نسل انسانی تھی اور مدتوں رہ کر نیست ہوگئی پھر باردیگر پھیلی اور اسی طرح پھر نیست ہوگی اور پھر زمین پر آباد ہوگی اور یہی تسلسل رہے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے نسل انسانی کا وجود ہونا کس دلیل سے معلوم ہوا ؟ کیا اس سے پہلے کے کچھ آثار باقیہ پائے گئے یا قواعد زیچ و تقویم سے معلوم ہوا یا کسی دیکھنے والے مخبر صادق نے خبر دی ؟ پھر جب ان میں سے کوئی بات بھی نہیں تو محض عقلی ڈھکوسلا اور وسوسہ شیطانی ہے۔ شیئامذکورا کا لفظ ان سب باتوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ انسان سے مراد نوع نہیں بلکہ ہر ایک انسان تب مطلب صاف ہے۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ کی ذات کا ثبوت دہریوں کا رد ہے اور نیز توحید کا بھی ثبوت ہے کس لیے کہ جمیع افراد انسانیہ حادث ہیں ان کو کارخانہ قدرت اور قضاء و قدر میں کچھ دخل نہیں اور نیز دوسرے پہلو میں قیامت کا بھی ثبوت ہے کہ ہم باردیگر پھر نیست کرنے پر قادر ہیں اور حشر میں پھر زندہ کرنے پر قدرت رکھتے ہیں۔ فائدہ : دھر زمانہ دراز حین اس کا ایک ٹکڑا۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ابن آدم مجھے گالیاں دیا کرتا ہے، جب وہ دہر کو گالیاں دیا کرتا ہے۔ میں ہوں دہر میرے ہاتھ میں سب کچھ ہے۔ میں رات دن کو پلٹتا ہوں۔ متفق علیہ۔ یعنی دہر کی طرف اس کا حوادث کو منسوب کرنا بےعقلی ہے۔ وہ دہر کیا کرتا ہے جو کچھ کرتا ہوں میں ہی کرتا ہوں۔ انجام کار دہریہ بھی جب اس سے دہر کی حقیقت دریافت کیا جائے تو اللہ جل جلالہ ٗ کی طرف آرہتا ہے۔ صرف لفظوں کا فرق رہ جاتا ہے یہی اس کی گمراہی ہے کہ پھر بھی وہ حق سبحانہ ٗ کا انکار کرتا ہے اور مادی و طبعی لوگوں کا بھی اسی کے قریب قریب مذہب ہے۔ وہ دہر کی جگہ مادہ کو پیٹا کرتے ہیں۔ نئے فلسفہ نے آج کل یورپ میں دہریت اور الحاد اور مادیت کا دریا بہا رکھا ہے ان کے کہربائی تجربات ان کی آنکھوں پر حجاب ہو رہے ہیں۔ اس اندھیری رات میں ادھر ادھر ٹکریں مارتے پھرتے ہیں۔ 1 ؎ کیونکہ ان کے نزدیک قدم مقتضائے دہر ہے اور وہ باطل ہوگیا۔ 12 منہ اس کے بعد نسل انسانی پھیلنے کا طریقہ بتلاتا ہے جو خاص اسی کے قبضہ و تصرف کی بات ہے۔ فقال اناخلقنا الانسان من نطفۃ امشاج کہ اور کسی نے نہیں بلکہ خود ہم نے انسان کو منی کے لچھے سے پیدا کردیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش پیچھے کی سورتوں میں بیان ہوچکی کہ ان کو مٹی سے بنایا اس لیے ان کا ذکر چھوڑ دیا گیا۔ مقصود نسل انسانی کا پھیلانا بتانا ہے گرچہ مبداء ان کا آدم ہیں۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی نسل قطرہ منی سے شروع ہوتی ہے۔ منی کو امشاج چیپ اور لچھ کہتے ہیں۔ انسان کی حقیقت بیان کرتا ہے کہ آپ جو زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہیں اور خدا کا انکار کر کے کہیں دہر کو کہیں مادہ کو خالق کہتے ہیں آپ کو علم و شعور ہی کیا ہے۔ آپ پہلے اپنی اصل کو تو بیان کر دیجئے کہ وہ منی جس میں چیپ تھا اور وہ نرومادہ کی منی رحم میں مل کر لچھ سا ہوگیا تھا وہ کون کون سی غذائوں کے کھانے سے بنی تھی اور رحم میں اس پر کس کس وقت کیا کیا تغیرات پیدا ہوئے تھے اور اس سے پہلے آپ کیا تھے آپ کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ پھر جب آپ کو ان باتوں کا علم نہیں تو آپ کس اعتماد پر دہر اور مادہ کو خالق کہتے ہیں ؟ اور اگر کوئی بھی خالق نہیں تو پھر آپ خودبخود کیونکر بتدریج بن گئے۔ فعل بغیر فاعل کے اور حادث بغیر محدث کے کیونکر ہوگیا ؟ اور یہ بھی اشارہ ہے کہ یہی نطفہ کا لچھ تو ہے جس میں انسان کی تمام قوتیں اور اعضاء ودیعت ہیں۔ بھلا اب کوئی بتلا تو دے کہ نطفہ کے کون سے جز میں سے کون سی قوت اور کون سا عضو ودیعت رکھا گیا ہے ؟ اور یہ بھی کہ آپ ایسی حقیر اور ناپاک چیز سے بنے ہیں جو کپڑے پر لگے تو دھوئی جائے پھر یہ غرور یہ باتیں ؟ اب انسان کے دنیا میں پھیلانے اور پیدا کرنے کا راز بھی بتلاتا ہے۔ نبتلیہ کہ ہم اس کو آزمائیں کہ دنیا کی اندھیری میں کیا کرتا ہے اور ہماری طرف بھی متوجہ ہوتا ہے یا لذات و شہوات ہی پر فریفتہ رہتا ہے اور اسی لیے فجعلناہ سمیعاً بصیراً اس کو ہم نے سننے دیکھنے والا بھی کردیا۔ کان دیے کہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کی باتیں سن کر ایمان لائے، اگلے مشرکوں کے حالات اور ان کی آفات سن کر عبرت کرے، ان بیہودہ کاموں سے بچے۔ آنکھ دی ہیں کہ آیات قدرت دیکھ کر ایمان لائے، برے بھلے کو دیکھے اور امتیاز کرے لوگوں کے غلط افسانوں ہی پر اڑا نہ رہے۔ دنیا کی رواروی اور اس کی بےثباتی دیکھ کر اپنے چلنے کی بھی فکر کرے۔ فائدہ : انسان کمبخت بڑی مصیبت میں ہے لذات و شہوات دنیا اس کے کانوں کو پھر آنکھوں کو اندھا کر کے اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہیں عقل سلیم دارآخرت کی طرف کھینچ رہی ہے ملہم غیبی پڑا پکار رہا ہے کہ او نادان ! ادھر نہ جا آگے جہنم کا عمیق گڑھا ہے۔ ادھر بیماری، فکرِمعاش، موت احباب و اقارب، رنج و الم اور بھی کھائے جاتے ہیں اور مہلت تھوڑی ؎ فکرِمعاش عشق بتاں یاد رفتگاں اس اتنی سی زیست پر کوئی کیا کیا کرے اسی لیے بعض حضرات اکابر نے یہ کہہ دیا کہ کاش ہم اسی حالت میں رہتے کہ شیئاً مذکورا نہ ہوتے۔ اس آزمائش کی پھر تشریح کرتا ہے۔ اناھدیناہ السبیل کہ ہم نے انسان کو کان آنکھ دے کر بری بھلی سب راہیں دکھا دیں اور بتا دیں کہ یہ برا رستہ ہے وہ دیکھ سیدھا جہنم کو جاتا ہے اور یہ رستہ سیدھا جنت کو جاتا ہے اور تجھے دونوں پر چلنے کا قضاء وقدر نے اختیار دیا ہے۔ فاما شاکراً واماکفورا پھر کچھ شاکر ہوگئے، جنت کی راہ پر چلے گئے اور کچھ کافر ناشکر ہوگئے جہنم کی راہ پر چلے۔ یا یوں کہو کہ اب تو خواہ شاکر ہو یا کافر پر یہ بھی یاد رہے اناجعلنا للکافرین سلاسل واغلالاوسعیرا کہ ہم نے کافروں، ناشکروں کے لیے زنجیریں اور طوق کان اور آنکھ کی ناشکری اور ان کو اچھے کاموں میں استعمال نہ کرنے پر اور دہکتی آگ، دل اور عقل کو راہ راست پر کام نہ لانے پر تیار کر رکھی ہے۔ ذرا مرنے کی دیر ہے اور جو شاکر ہیں وہی ابرار ہیں کس لیے کہ شکر منعم کے احسان کا بدلہ ہاتھ سے ‘ پائوں سے ‘ دل سے ‘ ادا کرنے کو کہتے ہیں اور اسی کا نام نیکی ہے۔ اس میں مخلوق خدا کے ساتھ بھلائی ‘ خیرات ‘ صدقات ‘ ہمدردی بھی آگئی کیونکہ نعمتوں کے بدلہ کی اس کو کیا حاجت ہے ؟ اس کی مخلوق کی حاجت براری اس کے قائم مقام ہے اور اسی لیے آیا ہے کہ جو کوئی فقیر مسکین حاجت مند کو دیتا ہے یا کسی بیمار کی عیادت کرتا ہے تو گویا ہماری عبادت کرتا ہے اور ہم کو دیتا ہے اور نماز و عبادت و ذکر بھی آگیا کس لیے کہ جان و تن کو اسی کی طرف جھکانا اس نعمت کا بدلہ ہے اور بری باتوں سے پرہیز بھی آگیا کس لیے کہ جو کام کرتا ہے درحقیقت وہ ان اعضاء اور دل کی قدردانی نہیں کرتا پھر ان نیکیوں کے لیے آخرت میں کیا ہے ؟ فرماتا ہے ان الابرار یشربون من کاس کان مزاجہا کافورا کہ نیکوں کو جنت میں شراب طہور کا وہ پیالہ پینے کو ملے گا جس میں چشمہ کافور کی آمیزش ہوگی یا اس کا مزاج کافوری ہوگا۔ کوئی گرمی اور سوزش نہ ہوگی تاکہ حشر کی گرمی سب دور ہوجائے۔ ان آیات میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ دنیا میں منکر زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں کسی کے گلے میں محبت زر کی زنجیر ہے، کسی کے زن و فرزند کی، کوئی باغ اور کھیتی اور تعمیر مکانات کی زنجیر میں جکڑا ہوا ہے ‘ کوئی ملک گیری کی زنجیر میں پابند ہے۔ الغرض 1 ؎ علائقِ دنیا کی زنجیریں ان کے لیے تیار ہیں تازیست ان سے چھٹکارا نہیں کہ ذرا بھی معرفت و عبادت کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ اور ان کے گلوں میں طوق بھی پڑے ہوئے ہیں۔ کسی کے گلے میں نوکری کا طوق ہے کہ امیروں اور بادشاہوں کی خدمت اور حاضر باشی سے دم بھر کی مہلت نہیں۔ کسی کے گلے میں شراب اور فاحشہ عورتوں کی محبت کا طوق پڑا ہوا ہے۔ کسی کے گلے میں دنیا طلبی اور حب جاہ و مال کا طوق ہے جو ایک دم بھی اس کو خدا کی طرف پھرنے اور متوجہ ہونے نہیں دیتا اور ان کے لیے دہکتی آگ بھی تیار ہے وہ کیا ؟ عداوت و حسد کی آگ ناکامی کی آگ حرس و شہوت کی آگ یا فوائدِ متوہمہ کے فوت ہوجانے کی آگ۔ یہ آگ ہر وقت دل میں جلتی رہتی ہے۔ محبتِ الٰہی اور رغبت دارآخرت کو وہاں گنجائش نہیں ہوتی۔ مرنے کے بعد بھی یہی زنجیر اور یہی طوق اور یہی آگ جہنم میں توے کی بڑی زنجیر اور گراں بار طوق اور دہکتی آگ ہوجائے گی۔ جس طرح یہاں چھٹکارا نہ تھا وہاں بھی ان سے رستگاری نہ ہوگی۔ برخلاف ابرار و اہل ایمان کے کہ ان کو شراب محبت الٰہی کا پیالہ پلایا جاتا ہے جس میں کافور کا اثر ہے جس سے وہ باوجود علائقِ دنیاویہ کے سب سے آزاد رہتے ہیں ان کے دلوں سے یہ آگ سرد کردی جاتی ہے۔ یہی پیالہ جنت میں شراب طہور کی شکل میں متشکل ہو کر سامنے آئے گا اور اس پیالہ ہی پر بس نہیں بلکہ عینا یشرب بہا عباد اللہ۔ وہ اللہ کے نیک بندے ایک چشمہ کو پئیں گے یعنی ان کے لیے چشمہ تیار ہے جو جاری ہے کبھی بند نہیں ہوتا، نہ اس میں کمی ہوتی ہے نہ ہوگی اور نہ صرف پئیں گے بلکہ یفجر ونہا تفجیراً کہ اس کو بہائیں گے جس طرح سے چاہیں گے کام میں لائیں گے۔ دنیا میں جو نہ صرف ایک ہی جام پیتے ہیں بلکہ چشمہ محبت الٰہی سے پیتے اور اس کو بہاتے اور ان کے ہر کام میں اور ہر بات میں اور ہر شان میں محبت الٰہی کا نشہ ہے وہ وہاں چشمہ ٔ کافور 2 ؎ کا بھی اسی طرح دل کھول کر استعمال کریں گے اور وہ کافور یہ دنیا کا کافور نہیں بلکہ وہ ایک دوسری چیز ہے جس کو اس کافور سے کسی خاص خاصیت میں مناسبت ہے۔ سردی اور سپید تقویت دل و دماغ ہیں 1 ؎ ان آیات میں انسان کا انجام اور آخرت کا بیان ہے۔ 2 ؎ سبحان اللہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ کو کیا ہی کافوری شراب کا پیالہ بلکہ چشمہ پلایا گیا کہ اس کے نشہ میں دنیا سردتھی اور پھر اس کو کیسا بہایا جس کی نالیاں ہند اور چین اور ترکستان ادھر بربر کے خشک میدانوں تک گئیں اور وہاں بھی لاکھوں کو مست و بےخود کردیا۔ پھر انہوں نے ساقی بن کر ایسا پلایا کہ جس کا نشہ اب تک نہیں اترا ان کے مزارات مقدسہ سے اب تک وہی مستی کی بو آتی ہے اور کفار کا زنجیروں اور طوق اور دہکتی آگ میں گرفتار ہونا ہر ایک کو دکھائی دے رہا ہے۔ 12 منہ
Top