Tafseer-e-Haqqani - Al-Insaan : 15
وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَةٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡۙ
وَيُطَافُ : اور دور ہوگا عَلَيْهِمْ : ان پر بِاٰنِيَةٍ : برتنوں کا مِّنْ فِضَّةٍ : چاندی کے وَّاَكْوَابٍ : اور آبخورے كَانَتْ : ہوں گے قَوَا۩رِيْرَا۟ : شیشے کے
اور ان پر چاندی کے برتن اور شیشے کے آبخوروں کا دور چل رہا ہوگا
ترکیب : انیۃ جمع انا ککساء واکسیۃ وغطاً واغطیۃ والاصل آء ینۃ بھمزتین الاولی مزیدۃ للجمع والثانیۃ فاء والکلمۃ فقلبت الثانیۃ الفاء من فضۃ بیان لانیۃ واکواب جمع کو ب وھوالکوزالکبیر (کوزہ بےدستہ۔ سراح) عطف علی آنیۃ کانت قوار یرالجملۃ صفۃ لاکواب والقواریر جمع قارورۃ (شیشہ) قراء نافع والکسائی قواریراً بالتنوین فی الموضعین مع الوصل ومع الوقف بالالف کسلا سلا وقرء حمزۃ بعدم التنوین فیہا وعدم الوقف بالالف بصیغۃ منتھی الجموع والثانی بدل من الاول۔ وقریٔ برفع الثانی علی تقدیرھی قوار برقدروھا صفۃ لقواریر عینا منصوب علی انھا بدل من کأس واذارایت ثم ثم فی موضع النصب علی الظرف یعنی فی الجنۃ وفی مفعول رایت اختلاف قیل مقدروقیل لاعالیھم قرء نافع وحمزہ بسکون الیاء وکسرالھاء علی انہ خبرمقدم وثیاب مبتداء موخر وقرء الباقون بفتح الیاء وضم الھا لتحرک ماقبلھا علی انہ ظرف کانہ قیل فوقھم ثیاب فنصبہ علی الظرفیۃ۔ وقیل نصب علیھم علی الحال امامن ھم فی قولہ یطوف علیہم اومن الولدان ای اذارایتھم حسبتھم لؤ لؤاً منثورا فی حال علو الثیاب ابدانھم والجملۃ صفۃٌ اخریٰ لولدان وقریٔ علیھم خضرٍ بالرفع لغت لثیابٍ وبالجر نعت لسندس لکونہ اسم جنت واستبرق بالرفع عطفاً علی ثیاب وحلواعطف علیٰ یطوف علیھم۔ تفسیر : یہ تتمہ ہے بیان سابق کا کہ جنت میں جنتیوں کے لیے کھانے پینے کا بھی شاہانہ سامان ہوگا صرف میوئوں ہی پر بس نہ ہوگی برتن اور آبخورے اور لوٹے وغیرہ ظروف چاندی کے ہوں گے مگر چاندی جیسی چمک اور صفائی آئینہ جیسی ہوگی۔ شیشہ دنیا میں مٹی کے مادہ سے ہوتا ہے وہاں کے شیشے کا مادہ چاندی ہوگا۔ ایسی چیز دنیا میں کسی کے پاس نہیں کہ مادہ تو چاندی ہو اور صفائی میں شیشہ ہو اور پھر وہ برتن بےڈول نہ ہوں گے بلکہ قدروھا تقدیر ایک عجیب صنعت اور انداز سے بنائے اور ڈھالے جائیں گے اور ہر ایک برتن میں وقت حاجت کی رعایت ہوگی جس قدر پانی اور کھانا مطلوب ہو اور جس موقع کے لیے ہو اتنا ہی اس میں آئے۔ اور سونے کے بھی برتن ہوں گے جیسا کہ سورة زخرف میں آیا ہے یطاف علیہم بصحافٍ من ذھب ٍ واکواب ہر موقع اور محل کے مناسب کہیں طلائی کہیں نقرئی برتن ہوں گے اور یطاف میں اشارہ ہے کہ کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر اوقات انہیں برتنوں کی آمدو ورفت رہے گی، خادمان پر یرولائیں گے لے جائیں گے، عیش و نشاط کا ایک تار بندھا رہے گا۔ ان کے صبر کا بدلہ ہے جو دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں میں نہ کھاتے تھے اور فقیرانہ گزر کرتے تھے اور ایسے لذیذ کھانوں کے بعد یا ساتھ کھانا جلد ہضم ہونے کے لیے ویسقون فیہا کا سا کأن مزاجہا زنجبیلا ان کو ایک ایسی عمدہ چیز کا پیالہ پلایا جائے گا کہ جس کا مزاج اور کیفیت یا آمیزش سونٹھ کی ہوگی تاکہ حرارت عزیزی جوش میں آئے اور عیش و نشاط کا لطف تازہ ہو۔ اور شوق دیدارِ الٰہی بڑھے تاکہ شوق کے بعد جو چیز ملے اس کی قدر اور لذت زیادہ ہو۔ اول مرتبہ کا فوری شراب کا پیالہ پلایا جانا فرمایا تھا کہ حشر کی گرمی اور ہموم و غموم کی تپش بالکل جاتی رہے بعد شراب زنجبیل کا پلایا جانا فرمایا کہ ایک دوسری گرمی پیدا ہو جو لذات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے کس لیے کہ جب انسان کی اصل گرمی کم ہوجاتی ہے تو پھر نہ ہضم جید ہوتا ہے نہ کسی مہ جبین کے وصال کا شوق باقی رہتا ہے نہ دل میں چونچلے اور اچھل کود کی امنگ رہتی ہے۔ ایک مٹی کا بےحس ڈھیر رہ جاتا ہے جیسا کہ بڑھاپے میں ہوتا ہے۔ مگر وہ زنجبیل دنیا کی زنجبیل نہیں کہ جس میں سوزش اور کسی قدر مضرت ہو بلکہ عینا فیہا تسمیٰ سلسبیلا وہ جنت میں ایک چشمہ ہوگا جس کا نام سلسبیل ہوگا۔ سل سبیل کے معنی ہیں پوچھ رستہ۔ اس میں اشارہ ہے کہ اس کو پی کر شوق بڑھے گا اور ساقی سے محبوب کا رستہ پوچھے گا۔ یہ دنیا میں شراب شوق الٰہی اور اس کی گرمی کا اثر ہے جو خاصان خدا کو نصیب تھا۔ اور اس شراب کو اور ان لذیذ نعمتوں کو کون لائیں لے جائیں گے ؟ ویطوف علیہم ولدان ٌ مخلدون لڑکے جن کا لڑکپن ہمیشہ باقی رہے گا، جوان بوڑھے نہ ہوں گے، ہمیشہ اسی حالت پر رہیں گے۔ لڑکوں میں ایک شوخی شرارت ترت پھرت اور بھولا پن ہوتا ہے۔ ایسی نشاط کی مجلسوں میں ان کا کھانے پلانے میں کام کرنا عجب لطف دیتا ہے اور نیز وہ ان کے خلوت خانوں میں ان کی محبوب بیبیوں کے ساتھ ہم نوالہ و ہم پیالہ ہونے میں آجاسکتے ہیں ناگوار نہیں معلوم ہوتے نہ وہ عورت ہوتے ہیں اس لیے نہ مرد کو ان کا آنا برا معلوم ہوتا ہے۔ نہ عورت کو برخلاف جوان مرد و عورت کے اذارأ یتم حسبتھم لوء لوء اً منثورا وہ ایسے حسین اور پرنور ہوں گے کہ ان کو خدمت میں ادھر ادھر آتے جاتے ‘ کھڑے بیٹھے جو کوئی دیکھے تو یہ سمجھے کہ گویا لڑی کے موتی بکھر گئے ہوں۔ موتی تو اس لیے کہ وہ ایسے خوبصورت ہوں گے اور بکھرے ہوئے اس لیے کہ وہ کاروبار میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہوں گے ان کے حسن اور ہر نے پھرنے کی بکھرے ہوئے موتیوں کے ساتھ نہایت عمدہ تشبیہ ہے۔ پھر فرماتا ہے کہ یہ جو کچھ نعمتیں بیان کیں طلائی برتن وغیرہ کچھ انہیں پر موقوف نہیں بلکہ واذارایت ثم رایت نعیماً وملکا کبیرا کہ جب تو دیکھنے والے جنت میں نظر کرے گا تو ہزاروں نعمتیں اور بڑی سلطنت اور شاہانہ تکلفات و تجملات دیکھے گا۔ جو دنیا میں عمدہ باغات اور سنگ مرمر کے طلائی اور جواہرات کے کام کئے ہوئے مکانات اور بڑے بڑے عیش و نشاط کے سامان اور بہاریں بڑے بڑے بادشاہوں کو حاصل ہیں وہ لاکھواں حصہ بھی وہاں کی نعمتوں کا نہیں جو ایک ادنیٰ سے شخص کو جنت میں ملیں گی۔ اب ان کی پوشاکوں کا حال بیان فرماتا ہے علیھم ثیاب سندس کہ ان کے اوپر خلعت کے طور پر چمکنے والے اور صاف ریشم کے مہین کپڑے خضرسبز رنگ کے ہوں گے کہ ان کی سرسبزی کی دلیل ہو۔ واستبرق اور ریشم کے دبیز کپڑے بھی ہوں گے۔ کاشانی مخمل وغیرہ جس طرح دنیا میں ہے یعنی اعلیٰ سے اعلیٰ شاہانہ لباس ہوگا۔ یہ ان کے صفات حمیدہ ہیں جو اس روز لباس بن کر ظہور کریں گے۔ لفظ عالیہم میں اسی طرف اشارہ ہے۔ کنگن پہنائے جانے کی وجہ : وحلوا اسا ورمن فضۃ اور ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ سورة کہف میں ہے یحلون فیہا من اس اور من ذھب کہ سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے، ممکن ہے کہ کسی کو سونے کے ‘ کسی کو چاندی کے ہر ایک کی رغبت یا مرتبے کے لحاظ سے یا کسی کو ایک وقت چاندی کے دوسرے وقت سونے کے پہنائے جائیں۔ بعض فرماتے ہیں کہ چاندی کے خادمان جنت کے کنگن ہوں گے اور حلوا کی ضمیر انہیں کی طرف ہے اور اہل جنت کے سونے کے۔ سوال : زیور عورت کی زینت ہے مرد کے لیے عیب ہے پھر جنت میں پہنائے جانے کی کیا وجہ ؟ جواب : اس کے جواب میں علماء کے چند اقوال ہیں۔ (1) یہ کہ دراصل یہ چاندی اور سونے کا زیور وہاں کے خادموں اور عورتوں کو پہنایا جائے گا مگر لفظ میں جانب تذکیر کو غلبہ دے کر مذکر کے صیغے اس لیے لائے گئے کہ ان کی عورتوں اور خادموں کو پہنانا انہیں کی خوشنودی کا باعث ہے گویا ان کو پہنایا گیا۔ (2) یہ کہ مشرقی ملکوں میں قدیم رواج ہے کہ سردار کے ہاتھ میں چاندی یا سونے کا کڑا یا کنگن ڈالا جاتا ہے کہ چاندی سونا اس کے ہاتھ میں ہے گویا یہ سرداری کی علامت ہے جیسا کہ مہذب ملکوں میں تمغہ۔ پس اسی قسم کا یہ بھی جنت میں ان کی سرداری کا تمغہ ہوگا نہ زینت کے لیے زیور۔ (3) یہ کہ یہ کنایہ ہے ان کے ان انوار برکات سے جو دنیا میں انہوں نے ان متبرک ہاتھوں سے نیک اعمال کئے تھے۔ یہ ان کی روشنی اور نور ہوگا جو ہاتھ میں کنگن معلوم ہوگا۔ شراب طہور : وسقاھم ربھم شراباً طہوراً اور ان کا رب انہیں شراب طہور پلائے گا۔ طہور کہ جس میں نہ نشہ ہے نہ سرور اور نہ خمار۔ لافیھا غول و لاھم عنہا ینزفون وہ ان سب قباحتوں سے پاک ہوگی۔ اہل دل کہتے ہیں شراب طہور کنایہ ہے شراب وصال سے کہ ان کو وہاں اس معشوق و محبوب حقیقی کا بےکیف وصال نصیب ہوگا جس کے نشہ میں وہ ابدالآبادمسرور رہیں گے۔ نعمائِ جسمانیہ کے بعد نعمائِ روحانیہ کا ذکر کیا کہ اس کے آگے وہ سب ہیچ ہیں۔ اور سقاھم ربھم میں سقا کو ربہم کی طرف منسوب کرنے میں جو کچھ لطف ہے وہ اہل دل پر مخفی نہیں کہ وہ خود اپنے دست مبارک سے یہ جامِ مئے بھر بھر کر پلائیں گے پھر اس کے آگے اور کیا نعمت ہوگی ؟ اہل ظواہر کہتے ہیں خادم پلائیں گے مگر وہ اسی کے حکم سے پلائیں گے اس لیے ان کا پلانا گویا خود اسی کا پلانا ہے۔ اہل جنت سے کہا جائے گا ان ہذاکان لکم جزاء کہ یہ تھی تمہاری جزا اور تمہاری دنیاوی کوششوں ایمان اور عمل صالح اور محبت الٰہی کا بدلہ جو تمہارے لیے تیار تھا اس میں اطمینان دلایا جاتا ہے کہ تمہاری نیکی اور پرہیزگاری رائیگاں نہ جائے گی جیسا کہ منکر کہتے ہیں بلکہ اس کا بدلہ تیار ہے تمہارے مر کر وہاں جانے کی دیر ہے وکان سعیکم مشکورا اور تمہاری کوشش مقبول ہوئی اس کی قدردانی کی گئی اکارت نہیں گئی برخلاف بت پرستوں اور مخلوق پرستوں کی بیکار کوشش کے کہ وہ ان کا آگ کے آگے سر جھکانا ‘ ٹھنڈے پانیوں میں نہانا ‘ بتوں کے لیے نذرونیاز کرنا ‘ آگ میں جل مرنا ‘ گوشت اور نعمائِ الٰہیہ کو چھوڑنا ‘ نکاح نہ کر کے تجرد میں گدائی کر کے گزر کرنا سب رائیگاں جائے گا بلکہ اس بت پرستی اور مخالفت رسول پر اور الٹا عذاب ہوگا، محنت برباد گناہ لازم کیونکہ وہ محنت تعلیم شیطانی خدا سے روکنے والی تھی۔
Top