Tafseer-e-Haqqani - Al-Insaan : 27
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ یَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا
اِنَّ : بیشک هٰٓؤُلَآءِ : یہ (منکر) لوگ يُحِبُّوْنَ : وہ دوست رکھتے ہیں الْعَاجِلَةَ : دنیا وَيَذَرُوْنَ : اور چھوڑدیتے ہیں وَرَآءَهُمْ : اپنے پیچھے يَوْمًا : ایک دن ثَقِيْلًا : بھاری
بیشک یہ لوگ جلد آنے والی (دنیا) کو پسند کرتے ہیں اور بھاری دن کو اپنے پس پشت پھینک رہے ہیں
ترکیب : یذرون معطوف علیٰ یحبون وکلاء ھما خبران یوما مفعول یذرون وراء ھم ظرف لہ اذاشئنا شرط ومفعول شئنا محذوف یدل علیہ الجواب وھوبدلنا الاان یشاء اللہ ای الاوقت مشیۃ اللہ والافی حال مشیۃ اللہ والظالمین منصوب بفعل محذوف یفسرہ ما بعدہ ای اعد۔ تفسیر : اس کے بعد تین چیزوں کا حکم دیتا ہے۔ فقال واذاکراسم ربک بکرۃ واصیلاً کہ صبح و شام اپنے رب کا نام لیا کرو۔ (2) ومن اللیل فاسجدلہ اور رات میں اس کو سجدہ کیا کرو۔ (3) وسبحہ لیلاً طویلاً اور بڑی رات سے اس کی تسبیح اور تقدیس کیا کر۔ ان آیات میں مفسرین کے دو قول ہیں : اول یہ کہ ان آیات میں نماز پڑھنا مراد ہے۔ بکرۃ سے صبح کی نماز اور اصیلاً سے ظہر و عصر کی نماز اور من اللیل فاسجدلہ سے مغرب و عشاء مراد ہے اور سبحہ لیلًا طویلا سے تہجد۔ دوم یہ کہ اس وقت نماز پنجگانہ فرض نہ ہوئی تھی۔ تہجد کی نماز اور رات میں عبادت کرنا تھا۔ ان آیات میں مقصود ہر حال میں عبادت کی ترغیب ہے جیسا کہ اس آیت میں یا ایھا الذین آمنوا اذکروا اللہ ذکر اکثیر واسبحوہ بکرۃ واصیلاً اور تسبیح و تہلیل ‘ دعا و استغفار و سجود ہی اس وقت کی نماز تھی۔ اوقات مخصوصہ میں عام مفسرین کے نزدیک مراد نماز پنجگانہ اور تہجد ہے۔ تہجد گو امت کے لیے فرض نہ ہو مگر مسنون ہے اور آنحضرت ﷺ کے لیے اس کے پڑھنے کا حکم تھا اس لیے بلفظ امر تعبیر کیا گیا۔ لیلاً طویلاً میں اشارہ ہے کہ تمام رات سونے اور عیش و نشاط ہی کے لیے نہیں بلکہ اس کا بڑا حصہ یادالٰہی کے لیے بھی ہونا چاہیے اور کچھ نہ ہو تو پچھلی تہائی رات کو تو اٹھ کر دربارِ الٰہی میں حاضر ہو نہ کہ دن چڑھے تک مدبروں کی طرح بستر پر کروٹیں لیا کرے۔ فائدہ : یہاں خدا تعالیٰ نام یاد کرنا بتلاتا ہے اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ عقول بشریہ کو اس کی صفات تک رسائی ہے مگر اس کی حقیقت ذات تک رسائی نہیں۔ انہیں اسماء وصفات سے اس کا علم حاصل ہوتا ہے۔ اسی کو کبھی اذکر ربک سے تعبیر کیا اور کبھی واذکرربک فی نفسک سے اور کبھی واذکراسم ربک سے۔ اوقات مخصوصہ میں خدا پاک کی عبادت کرنا ‘ تسبیح و تہلیل میں مصروف ہونا ‘ دعا مانگنا ‘ گریہ وزاری کرنا وغیرہ جن کا حکم دیا گیا تھا بقولہ واذکراسم ربک بکرۃ واصیلاً الخ انہیں لوگوں کا کام ہے جو دارآخرت کے قائل ہیں اس لیے وہاں کے لیے یہ توشہ ساتھ لیتے ہیں اور دارآخرت کا یقین ہی ہے جو انسان کو اس طرف ابھارتا ہے برخلاف کفار و مشرکین کے کہ وہ ادھر متوجہ نہیں ہوتے نہ ان کو اس عبادت و شب بیداری میں کچھ حلاوت ملتی ہے کس لیے کہ ان ھؤلاء یحبون العاجلّہ ویذرون وراء ھم یوماً ثقیلاً یہ تو دنیا اور اس کی لذات و شہوات پر فریفتہ ہیں۔ شب و روز مال و زر ‘ زن و فرزند اسباب دنیا کے جمع کرنے میں مصروف ہیں انہیں باتوں میں ان کو مزہ اور حلاوت معلوم ہوتی ہے، انہیں کاموں کو کام سمجھتے ہیں اور انہی چیزوں میں کامیابی حاصل کرنے کو خوش نصیبی اور فوز عظیم جانتے ہیں اور دارآخرت کو چھوڑے بیٹھے ہیں۔ اول تو اس کا یقین ہی نہیں اور جو کچھ ہے بھی تو اس کے لیے تدابیر نہیں نہ کوشش ہے نہ دل میں رغبت ہے نہ طبیعت میں میلان اور ان دونوں حالتوں میں دارآخرت کو (جو بڑا بھاری اور مصیبت ناک دن ہے مصائب کی وجہ سے) چھوڑنا اور پیچھے پھینک دینا ہے۔ اور ان کا یہ عذر ( کہ ہم میں دارآخرت کی قدرت نہیں کاروبار دنیا سے مہلت نہیں، نماز پنجگانہ خصوصاً صبح اور عشاء اور تہجد بھلا ہم سے کیونکر ادا ہوسکتی ہے وہ سونے کا وقت ہے) محض غلط ہے کس لیے کہ نحن خلقناھم وشددنا اسرھم ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے بنیاد جسم کو مضبوط کیا ہے۔ ہٹے کٹے ہیں، نیک و بد نفع و نقصان کی سمجھ بوجھ ہے۔ بدبخت اکثر اپنی کمزوری اور ناچاری کا عذر کیا کرتے ہیں اور وہ دراصل ان کی سستی اور کاہلی سے ہوتی ہے ان کے جواب میں یہ آیت ہے۔ مگر بعض بدنصیب ازلی ہوتے ہیں، نیک کام کیسا ہی آسان ہو ان کو پہاڑ معلوم ہوتا ہے اور برا کام کیسا ہی مشکل ہو ان پر آسان ہوتا ہے۔ ناچ تماشے میں رات بھر جاگیں، آنکھ نہ جھپکیں، عبادتِ الٰہی میں دو گھڑی بھی بیٹھ نہ سکیں۔ یہ آیت ان کے سرشت کا بھی حال بیان کرتی ہے کہ یہ بدبخت عاجلہ دنیا اور اس کے عیش و نشاط ‘ لذات و شہوات کو پسند کرتے ہیں اور آخرت سے غافل ہیں کس لیے کہ ہم نے ان کو پیدا کیا ہے ان کی سرشت بد سے ہم خوب واقف ہیں وشددنا اسرھم اور ان کی قوت شہوانیہ کو قوی کردیتا ہے کتوں اور خنزیروں جیسی قوت بہیمیہ ان میں بہت رکھی گئی ہے۔ رات دن چرنے اور جفتی کرنے کے سوا انجام کار کے سوچنے اور فکر کرنے کی ان میں قابلیت ہی نہیں اور جو کچھ ہے تو مہلت نہیں اولئک کالانعام بل ھم اضل۔ فذرھم یاکلوا ویتمتعواکماتا کل الانعام والنار مثنوی ً لہم ایسے ناپاک اور زمین کو اپنے گھنائونے کاموں سے گندہ کرنے والے اپنے قیام و دوام کا دعویٰ نہ کریں اور نہ اس مہلت چند روزہ پر نازاں ہوں کس لیے کہ واذاشئنا بدلنا امثالہم تبدیلا ہم جب چاہیں ان کو مٹا کر ویسے ہی (شکل و صورت و قوت میں) اور لوگ پیدا کرسکتے ہیں اور ایسا ہی کرتے بھی ہیں قوم نوح برباد ہو کر اور قومیں پیدا ہوئیں۔ ہر صدی پر بلکہ پچاس برس کے بعد دوسرا ہی نقشہ جم جاتا ہے۔ پہلوں میں سے صدی دو صدی کے بعد انسان تو کیا ان کے استعمال کے جانور بلکہ اکثر مکانات بھی نہیں رہتے۔ اس قرن کی کشتی بھری ہوئی عدم کے عمیق گڑھوں میں پڑی ہوتی ہے اور دوسرے لوگ بستے ہوتے ہیں اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان کے بدلے اے پیغمبر ! اور لوگ ہم تیرے لیے پیدا کرسکتے ہیں چناچہ عتبہ کے بدلے اس کے بیٹے حذیفہ کو اور ولید کے بدلے اس کے بیٹے خالد کو معین دین بنا دیا۔ امثالھم کے بعض مفسرین نے اشکالہم کے معنی بھی لیے ہیں تب یہ معنی ہوں گے کہ ہم جب چاہیں ان کی صورت بدل دیں، مسخ کردیں یا فراغدستی اوراقبال سے خواری اور ذلت کی حالت میں کردیں جس سے ان کی وہ صورت بدل جائے، ڈرتے رہنا چاہیے۔ پھر یہ قریش اس بات پر مغرور نہ ہوں کہ ہم آنحضرت ﷺ کے اقارب اور اہل وطن ہیں جب ہم نے اس کو قبول نہ کیا تو اور کوئی کیا قبول کرے گا کس لیے کہ ھذہ تذکرۃ یہ آیات پندونصیحت ہیں کوئی برادری کا حصہ بخرا نہیں کہ آنحضرت ﷺ خواہ مخواہ تمہارے سمجھانے کے لیے مجبور ہوں۔ فمن شاء اتخذالی ربہ سبیلاً ۔ پھر جو کوئی ہو عرب یا عجم ‘ قریب یا بعید جو چاہے ان آیات سے اپنے رب تک پہنچنے اور اس کی مہمان سرا جنت میں حیات جاودانی حاصل کرنے کا رستہ اختیار کرلے۔ خدا تعالیٰ تمام جہاں اور تمام قوموں کا خدا ہے اس کا دین بھی سب کے لیے برابر ہے سب کے لیے اس کی رحمت کی راہیں کشادہ ہیں۔ بنی اسرائیل و بنی اسماعیل کی کوئی خصوصیت نہیں۔ مگر یہ جاننا بھی درحقیقت اے بندگان خدا ! تمہارے بس میں نہیں وماتشائون الاان یشاء اللہ تم جب ہی چاہ سکتے ہو کہ جب اللہ بھی چاہے اور فائدہ توفیق تمہیں ادھر کھینچ کرلے چلے۔ ہرچند قوت وقدرت ہر ایک میں رکھی ہے تاکہ دارامتحان کا معاملہ معطل نہ ہو لیکن محرک اسی کی توفیق ہے۔ ان اللہ کان علیما حکیماً یدخل من یشاء فی رحمتہ بیشک اللہ خبردار حکمت والا ہے جس میں صلاحیت اور نور ازلی دیکھتا ہے اس کو اپنی رحمت یعنی راہ راست پر لاتا ہے ‘ دین حق سمجھاتا ہے۔ ورنہ بڑے بڑے عاقل ‘ ہوشیار ‘ پُر فن ‘ پُر گو مالدار خوبصورت یوں ہی وادی ضلالت میں ٹکرا ٹکرا کر مرگئے اور جہنم کے عمیق گڑھے میں جا پڑے اور غریب کم مایہ کو کھینچ لیا۔ اس میں قریش پر تعریض ہے کہ تم نے کیا دین حق کو قبول نہیں کیا دین حق نے تم کو ردی جان کر پھینک دیا اور تمہاری سرکشی اور بدکاری کی ناپاکی نے بارگاہ قدس میں آنے کے قابل نہ رکھا۔ اس پر بھی بس نہیں یہ تو دنیا میں تمہارے نامعقول اور مردود ہونے کی وجہ سے ہے مگر آخرت میں والظالمین اعدلہم عذابا الیماً ظالموں کے لیے اس نے عذاب الیم تیار کر رکھا ہے مرنے کی دیر ہے۔ سورة کی ابتداء اس بات سے تھی کہ انسان پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے کہ جس میں نیست و نابود تھا پھر اس کو اس قادر مطلق نے منی کے قطرے سے پیدا کیا اور عقل و حواس دیے۔ پھر جس نے ان عقل و حواس سے کام لیا اپنی ابتداء و انتہا کو سوچا راہ راست اختیار کی ‘ وہ سعادت کی کرسی پر بیٹھا ‘ دارِآخرت میں حیات جاودانی اور سلطنت کا مالک بنا اور جس نے ان سے کام نہ لیا لہو ولعب ‘ لذات و شہوات میں غرق ہوا اور انبیاء (علیہم السلام) کا مقابل ہوا اس کے لیے عذاب الیم تیار رکھا ہے۔ ابتدائِ کلام کو انتہائِ کلام سے کمال ارتباط ہے اور یہ کمال درجہ کی بلاغت ہے۔ اگر یہی سورة مبارکہ بغور تامل دیکھی جائے تو انسان کی ہدایت کے لیے اعتقادیات سے لے کر عملیات تک کامل رہبر ہے جس میں دارآخرت کی ترغیب روح کو اس جہان کی نعمتیں بیان فرما کر کامل تشویق اور بدکاروں، سرکشوں، منکروں کو وہاں کے مصائب یاد دلا کر تخویف دلائی گئی ہے اور اصول حسنات نماز و خیرات بھی تعلیم فرمائے گئے ہیں۔ ان تمام مقاصد کا جب کوئی خدا ترس طبیعت دل پر نقشہ جمائے تو فوراً ایک نورانیت پیدا ہوتی ہے۔ پھر یہ مطالب عالیہ کس کس دلکش عبارت میں بیان کئے گئے نہ کوئی شاعرانہ مبالغہ ہے نہ شہوات برانگخیۃ کرنے والے شاعرانہ خیالات ہیں۔
Top