بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Haqqani - An-Naba : 1
عَمَّ یَتَسَآءَلُوْنَۚ
عَمَّ : کس چیز کے بارے میں يَتَسَآءَلُوْنَ : وہ ایک دوسرے سے سوال کر رہے ہیں
وہ کیا 1 ؎ پوچھ رہے ہیں 2 ؎؟
ترکیب ¦ عم اصلہ عن ما فادغمت النون فی المیم وحذفت الالف لیتمیز الخبر عن الاستفھام وکذلک فیم وبم۔ والاستفھام فی اللفظ وفی المعنی تفخیم القصۃ کما تقول ای شیء ترید اذا عظّمت شانہ عن النباء العظیم عن بدل من الاولی والف الاستفہام التی ینبغی ان تعادمحذوفۃ وعن الاولیٰ متعلقہ بیتساء لون وقیل عن الثانیۃ متعلقۃ بفعل محذوف غیر مستفھم عنہ ای یتساء لون عن النباء علی ھذا التقدیر عن النباء جواب الاستفھام کما فی قولہ تعالیٰ لمن الملک الیوم للہ الواحد القہار الذی ھم فیہ مختلفون الموصول صفۃ للنباء بعد وصفہ بکونہ عظیمًا۔ تفسیر ¦ اس سورت کو سورة تساؤل اور سورة نباء بھی کہتے ہیں۔ یہ بالاتفاق مکہ میں نازل ہوئی ہے۔ اس میں چالیس یا اکتالیس آیات دو رکوع ہیں۔ اس کی مناسبت سورة مرسلات سے مسئلہ معاد میں ہے اور ہجرت سے پہلے یہی مسئلہ زیادہ تر مبحوث عنہا تھا۔ شان نزول ¦ شان نزول اس کا یہ ہے کہ جب آنحضرت ﷺ مکہ میں مبعوث ہوئے اور ان انسانی اعمال کی جزاء و سزا کے منکروں کو ایک آنے والے دن کی خبر دی کہ ایک دن آنے والا ہے جس میں یہ دنیا زیرو زبر ہوجائے گی اور انسان باردگر زندہ ہوں گے اور ان کے نیک و بد اعمال کی ان کو جزاء و سزا ملے گی (یہ خبر عقلمند کے نزدیک البتہ بڑی خبر ہے۔ کس لیے کہ شتر بےمہار ہو کر نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے والوں اور پھر سلسلہ حیات کو اسی حیات پر تمام سمجھنے والوں کو ایک سخت پریشانی کا سبب اور نہایت فکر کی بات ہے) تب وہ کفار بار بار تعجب کی راہ سے حضرت نبی ﷺ سے دریافت کرتے تھے کہ کب وہ دن ہے اور یہ کیونکر ہوگا کہ بوسیدہ ہڈیاں پھر زندہ ہوں گی۔ ان کے اس سوال اور تعجب کا ان آیات میں ذکر کرتا ہے۔ فقال عم یتسالون کہ یہ لوگ کیا پوچھ رہے ہیں ؟ خدا تعالیٰ کو معلوم تھا کہ جس چیز کا وہ سوال کرتے تھے مگر یہ ایک محاورہ ہے کہ جب کوئی بڑی بات پوچھتا ہے یا چاہتا ہے تو کہتا ہے تو کیا پوچھتا ہے۔ کیا چاہتا ہے یعنی یہ پوچھنے اور چاہنے کی چیز نہیں۔ تسائول باہم سوال کرنا ایک دوسرے سے پوچھنا۔ یہ پوچھنے والے کون تھے ؟ بظاہر کفار تھے کہ تعجب و انکار و تمسخر کی راہ سے آپس میں چرچا کرتے اور پوچھتے تھے۔ فراء کہتے ہیں تسائول بات چیت کو بھی کہتے ہیں۔ گرچہ باہم سوال و جواب نہ ہو کما فی قولہ تعالیٰ واقبل بعضہم علی بعض یتساء لون قال قائل منہم انی کان لی قرین یقول ائنک لمن المصدقین اس تقدیر پر یہ معنی ہیں کہ وہ آپس میں کس چیز کا چرچا کرتے ہیں ؟ یعنی یہ چرچا کرنے اور تعجب و انکار کرنے کی بات نہیں بلکہ مان لینے کی چیز ہے۔ جمہور کے نزدیک یہ پوچھنے یا چرچا کرنے والے کفار تھے کس لیے کہ اس کے بعد کلاسیعلمون اور ھم فی مختلفون میں ضمیریں کفار کی طرف پھرتی ہیں۔ اس لیے یتسائلون کی ضمیر بھی ان ہی کی طرف پھر نی چاہیے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ مسلمان و کفار باہم ایک دوسرے سے پوچھتے تھے۔ کفار مسلمانوں پر شبہات پیش کرتے تھے۔ وہ جواب دیتے تھے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ مسلمان و کفار سب آنحضرت ﷺ سے پوچھتے تھے ٗ مسلمان اس لیے کہ اور بھی یقین قوی ہوجاوے اور کفار تمسخر کی راہ سے یا شکوک و شبہات وارد کرنے کی غرض سے۔ پھر آپ ہی فرماتا ہے عن النباء العظیم الذی ھم فیہ مختلفون۔ اس بڑی چیز سے سوال کرتے ہیں کہ جس میں اختلاف کر رہے ہیں یعنی کیا وہ بڑی خبر پوچھ رہے ہیں ؟ جس کا پوچھنا اور تعجب کرنا لازم نہیں۔ لفظ عظیم اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ وہ تو ایک بڑی بھاری بات ہے۔ اس کی عظمت دلوں پر خود بخود اثر ڈال رہی ہے۔ بشرطیکہ دلوں پر حجاب ظلمانی اس اثر سے روکنے والے نہ ہوں اور جملہ ھم فیہ مختلفون بھی اسی طرف اشارہ کر رہا ہے کس لیے کہ اختلاف کرنا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ اس بڑی خبر کے بطلان پر بھی ان کے پاس کوئی برہان قاطع اور تسلی بخش دلیل نہیں بلکہ محض توہمات ہیں۔ پھر ان کے زور پر الہامی باتوں پر اس قدر انکار اور اصرار حماقت ہے۔ نبائِ عظیم کی تفسیر ¦ نباء کے معنی ہیں خبر۔ نباء عظیم بڑی خبر۔ وہ کیا ہے ؟ اس میں تین قول ہیں۔ اول قیامت اور اس پر چند دلیل ہیں : (1) یہ کہ بعد میں فرمایا ہے سیعلمون جس سے تہدید مراد ہے اور وہ تہدید قیامت میں زیادہ متحقق ہے (2) یہ کہ بعد کی آیات میں الم نجعل الارض مہادا الخ میں وہ دلائل بیان فرمائے ہیں جو اس کی قدرت و جبروت انعام و افضال کے نمونہ ہیں جن سے قیامت برپا کرنے پر اپنا قادر ہونا ثابت کرنا مقصود ہے۔ (3) یہ کہ لفظ عظیم ایک اور جگہ بھی قرآن میں قیامت پر اطلاق ہوا ہے بقولہ تعالیٰ الایظن اولئک انہم مبعوثون لیوم عظیم۔ یوم یقوم الناس لرب العالمین وقولہ تعالیٰ قل ھو نباء عظیم انتم عنہ معرضون۔ دوسرا قول یہ کہ نباء عظیم سے مراد قرآن شریف ہے اور اس میں ان کا اختلاف تھا۔ کوئی اس کو سحر کوئی شعر کوئی اگلوں کے قصے کہتا تھا اور نیز نباء جس کے معنی خبر کے ہیں ٗ قرآن سے زیادہ چسپاں ہیں۔ کس لیے کہ قرآن خبر دیتا ہے برخلاف قیامت کے کہ وہ مخبر عنہ ہے۔ تیسرا قول یہ کہ اس سے مراد آنحضرت ﷺ کی نبوت ہے اور وہ بڑی چیز ہے جس نے دنیا میں انقلاب عظیم پیدا کردیا۔ پہلے قانون اور رسم و رواج پلٹ دیے۔ پرانی بادشاہتیں غارت کرکے نئی قائم کردیں۔ ان ہی باتوں سے ان کفار کو جو دقیانوسی خیالات کے پابند اور پرانی لکیر کے فقیر تھے ٗ آنحضرت ﷺ کی نبوت میں اختلاف تھا ٗ اختلاف بمعنی انکار۔ مختلفون کی تفسیر ¦ قیامت کا اکثر عرب کو انکار تھا اور تعجب سے کہتے تھےء ذا متنا وکنا ترا باذلک رجع بعید۔ اور کچھ قائل بھی تھے۔ نصاریٰ معاد جسمانی کے منکر تھے ٗ صرف معاد روحانی کے قائل تھے بلکہ اب بھی ہیں۔ یہود کے بعض فرقے بالکل قیامت کے منکر تھے اور ہنود تناسخ کے پیرایہ میں سزاء و جزاء کے قائل ہیں۔ پھر قیامت کی کیفیت میں بھی سخت اختلاف تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ مر کر انسان کی روح جنوں یا فرشتوں میں مل جاتی ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔ پھر اس عالم میں اس جسم سابق میں آنا محال ہے اور نہ یہ آسمان و زمین فنا ہوں گے نہ عناصر بلکہ جس طرح یہ قدیم ہیں اسی طرح ابدی بھی ہیں۔ البتہ ان سے باہم ترکیب پا کر جو چیزیں پیدا ہوتی ہیں وہ حادث ہیں اور وہی فنا پذیر بھی ہیں۔ ان سب کے جواب میں فرماتا ہے کلا سیعلمون تمہارے خیالات صحیح نہیں ہیں عنقریب مرنے کے بعد تم کو معلوم ہوجاوے گا ٗ ثم ٗہم پھر کہتے ہیں کلا تمہارے خیالات صحیح نہیں۔ سیعلمون تم کو قیامت اور اس کی اصلی کیفیت عنقریب معلوم ہوجاوے گی ٗ کس لیے کہ دنیا روزے چند ہے۔ 1 ؎ 1 ؎ عم دراصل عن ماتھا الف کو تحفیف اور کثرۃ استعمال کی وجہ سے حذف کیا قاعدہ ہے کہ الف ما کو ان حروفِ جر کے بعد حذف کردیتے ہیں۔ عن۔ تا۔ لام۔ وفی۔ وعلیٰ ۔ والی وحتّٰی 12 منہ 2 ؎ الضمیر یرجع الی اہل مکۃ کانوا یتساء لون عن البعث ای تعین البعث بکونہ متسائلا دون امر النبوۃ والقرآن علی ما قیل لا قتضاء قولہ تعالیٰ الم نجعل الارض او یتساء لون الرسول والمومنین عنہ استھزاء ًا و للناس یعنی المسلمین والکافرین 12 حقانی 1 قراء الجمہور عم بحذف الالف وقریٔ باثبا تھا وھو قلیل وقریٔ بھاء السکتۃ عوضاعن الالف عمہ 12 منہ
Top