Tafseer-e-Haqqani - Al-Anfaal : 20
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اَطِيْعُوا : حکم مانو اللّٰهَ : اللہ وَرَسُوْلَهٗ : اور اس کا رسول وَلَا تَوَلَّوْا : اور مت پھرو عَنْهُ : اس سے وَاَنْتُمْ : اور جبکہ تم تَسْمَعُوْنَ : سنتے ہو
مسلمانو ! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کیا کرو اور اس کو سن کر منہ مت پھیرلیا کرو
ترکیب : وانتم تسمعون جملہ حال ہے ولا تولوا سے شرالدواب اسم ان الصم الیکم موصوف الذین موصول لا یعقلون صلہ جملہ صفت مجموعہ خبر ان اذا ظرف ہے استجیبوا کا للرسول جار اس فعل سے متعلق۔ وانہ معطوف ہے ان اللّٰہ پر مجموعہ معطوف اور معطوف علیہ مفعول واعلموا لاتصیبن جملہ مستانفہ اور جواب ہے قسم محذوف کا ای واللہ لاتصیبن الظالمین خاصۃً بل تعم اور نہی بھی ہوسکتی ہے اور کلام معنی پر محمول ہوگا ای لاتدخلوا فی الفتنۃ فانہا عقوبۃ عامۃ۔ تفسیر : فرمایا تھا ان اللّٰہ مع المؤمنین کہ اللہ مسلمانوں کے ساتھ ہے۔ یہاں یہ بات بتلاتا ہے کہ خدا کا تمہارے ساتھ ہونا کچھ تمہارے نام کے مسلمان کہلانے سے نہیں بلکہ ان شرائط سے ہے۔ (1) اطیعواللّٰہ ورسولہ کہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو۔ (2) ولا تولوا عنہ وانتم تسمعون کہ رسول کا حکم سن کر روگردانی نہ کرو۔ حقیقت میں جب تک مسلمانوں میں یہ دونوں باتیں رہیں خدا کا سایہ ان پر رہا ٗ دنیا کی سرسبز سلطنتیں باوجود بےسرو سامانی کے ان کے ہاتھ میں دے دیں۔ پھر اسی مضمون کی تاکیدفرماتا ہے کہ تم ان منافقوں جیسے نہ ہوجاؤ کہ جو زبان سے تو سمعنا کہتے ہیں اور دل سے نہیں سنتے۔ قضاء و قدر نے ان میں حق کے سننے اور ماننے کا مادہ ہی نہیں دیا۔ جیسا کہ چارپایوں میں نہیں جو زمین پر چلنے والوں میں مذموم سمجھے جاتے ہیں۔ وہ حق کے سننے سے بہرے اور حق کے بولنے سے گونگے ہیں۔ اس کے سواء عقل بھی نہیں جو باعث شرف ہے اور خدا نے جو ان میں یہ قابلیت نہیں رکھی تو اس لئے کہ وہ ازلی گمراہ ہیں۔ اگر سنتے بھی تو اعتراض کر جاتے۔
Top