Tafseer-e-Haqqani - Al-Anfaal : 55
اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَۖۚ
اِنَّ : بیشک شَرَّ : بدترین الدَّوَآبِّ : جانور (جمع) عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا فَهُمْ : سو وہ لَا يُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے
بیشک زمین پر چلنے والوں میں سے اللہ کے نزدیک وہ بدتر ہیں کہ جنہوں نے کفر کیا۔ سو وہ ایمان نہیں لاتے
ترکیب : الذین کفروا خبر ان فاما شرط تثقفنھم تجدنہم چونکہ شرط کا کلمہ ان ما کے ساتھ مؤکد ہوگیا اس لئے اس کے بعد فعل کو نون تاکید کے ساتھ لانا مستحسن ہو۔ افشرد جواب شرط فرق بہم ای بسببہم متعلق ہے شرد سے۔ من موصولہ خلفہم ثبت کے متعلق ہو کر اس کا صلہ یہ سب شرد کا مفعول ہوا خیانۃ مفعول ہے تخافن کا فانبذا طرح عہد ھم علی سوا حال ہے ای مستویاسب جواب شرط۔ من قوۃ ومن رباط الخیل ما کا بیان ہے الذین کفروا یحسبن کا فاعل ‘ سبقوا مفعول اور بعض نے تحسبن بھی پڑھا ہے۔ تفسیر : کافروں کو کہا تھا کل کانوا ظالمین اب ان ظالموں میں سے زیادہ تر راندہ درگاہوں کا ذکر اور ان کی عادت کا بیان فرماتا ہے کہ ان سے کیا برتاوا کرنا چاہیے ؟ ان الشر الدواب کہ سب میں برتر وہ کافر ہیں کہ جن میں دو وصف ہیں۔ اول یہ کہ وہ اپنے کفر پر مصر ہیں ٗ ایمان نہیں لاتے۔ دوسرا یہ کہ وہ اپنے عہد کو ہر بار توڑ ڈالتے ہیں۔ اس کی کچھ رعایت نہیں کرتے۔ اب ان سے کیا کرنا چاہیے ؟ کہ اگر کہیں جگ میں ہاتھ آجاویں تو ان کو ایسی سزا دے کہ جس کو سن کر ان کے بعد کے کفار پریشان ہوجاویں۔ یہ تو ان کا حال تھا کہ جنہوں نے کھلم کھلا عہد توڑ ڈالا۔ جیسا کہ بنی قریظہ یا جنہوں نے جنگ بدر میں باوجود عہد کے کفار کو ہتھیاروں کی مدد دی۔ پھر قائل ہونے کے بعد بھی جنگ احزاب میں مخالفوں سے جا ملے اور جن سے عہد شکنی کا گمان ہو اور اس کی علامات پائی جاویں تو ان کو آپ بھی صاف طور پر مطلع کر دیجئے کہ اب ہمارا تمہارا عہد باقی نہیں رہا تاکہ آپ پر عہد شکنی کا دھبہ نہ لگے اور ایسے چالاک کافر یہ خیال نہ کریں کہ وہ ہمارے قابو میں ہیں ٗ ہم ان سے عاجز نہیں۔ مگر اے اہل اسلام ! بظاہر تم بھی ان کے مقابلہ میں جہاں تک قوت بہم پہنچ سکے پہنچائو۔ آنحضرت ﷺ کے عہد میں علاوہ رباط الخیل یعنی جنگ کے لئے گھوڑے باندھنے کے تیر اندازی بھی عمدہ قوت تھی مگر اس زمانہ میں بجائے اس کے عام مسلمانوں کو قواعد سکھلانا عمدہ اور نو ایجاد توپیں اور بندوقیں اور دخانی جہازات اور دیگر سامان حرب پہنچانا عمدہ موقعوں پر اور ریل اور تار برقی لگانافرض کفایہ ہے۔ اس قوت کا فائدہ دشمنوں کو خوف دلاتا ہے کیونکہ اعدانہ کسی علم سے ڈرتے ہیں ‘ نہ کسی معاہدہ سے ‘ نہ کسی صنعت و حرفت سے ‘ نہ نئی روشنی کے لباس و عادات سے وہ تو قوت جنگ سے ڈرتے ہیں جس میں یہ ہے اسی کی عزت ٗ اسی کے لئے عہد ہے۔ اس میں جو کچھ مسلمانوں کا صرف ہو اس کا اجر اللہ کے ہاں سے پورا ملے گا۔ پھر اس طاقت و شوکت کے بعد بھی اگر وہ صلح پر مائل ہوں تو صلح کرلیجئے اور اسلام پر بھروسہ رکھئے۔ ان کے کی دو مکر آپ پر کچھ نہ چلیں گے۔ اللہ کافی ہے جس نے آپ کے بغیر اسباب ظاہرہ اپنی فتح 1 ؎ اور مومنین سے بھی مدد کی ہے۔ 1 ؎ اللہ کی فتح ہر قسم کی کشائش جو نبی ﷺ کو میسر آئی یہ بڑی مدد تھی۔ 12 منہ
Top