Tafseer-e-Haqqani - Al-Anfaal : 63
وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ١ؕ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّاۤ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِهِمْ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَیْنَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَاَلَّفَ : اور الفت ڈال دی بَيْنَ : درمیان۔ میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل لَوْ : اگر اَنْفَقْتَ : تم خرچ کرتے مَا : جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں جَمِيْعًا : سب کچھ مَّآ : نہ اَلَّفْتَ : الفت ڈال سکتے بَيْنَ : میں قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل وَلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ اَلَّفَ : الفت ڈالدی بَيْنَهُمْ : ان کے درمیان اِنَّهٗ : بیشک وہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور (اے رسول ! ) اللہ ہی نے مسلمانوں میں باہم محبت پیدا کردی۔ اگر آپ دنیا بھر کی سب چیزیں بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دل میں الفت پیدا نہ کرسکتے تھے مگر اللہ نے ان کے دل میں الفت پیدا کردی کیونکہ وہ زبردست (اور) حکمت والا ہے
ترکیب : والف معطوف ہے اید پر حسبک ای کا فیک مبتداء اللّٰہ خبر ومن اللہ پر معطوف۔ ان شرطیہ یکن تامہ عشرون فاعل منکم ان سے حال یہ شرط یغلبوا جواب شرط مائتین یغلبوا کا مفعول ‘ من الذین کفروا الفا کا بیان بانہم جملہ علت ہے یغلبوا کی۔ تفسیر : اور اس نے اس کے دل میں الفت دی جو کسی کے اختیار کی بات نہ تھی۔ جس وقت آنحضرت ﷺ عرب میں مبعوث ہوئے جس طرح تمام روئے زمین پر کفر و بت پرستی کی تاریکی محیط تھی (کیونکہ اس وقت خدا پرست روئے زمین پر یہود اور عیسائی خیال کئے جاتے تھے۔ سو ان کی جو کچھ حالت خراب تھی اور جس قدر ان میں بت پرستی تھی تواریخ سے ظاہر ہے) اسی طرح ملک عرب میں علاوہ بت پرستی و زناکاری کے باہمی عداوت اور خانہ جنگی کا بھی کچھ حساب نہ تھا۔ جہاں کسی نے ایک قبیلے کے لڑکے کو ایک طمانچہ مار دیا دوسرا قبیلہ ان پر چڑھ آیا۔ پھر یہ آتش جنگ قرنوں تک فرو نہ ہوتی تھی۔ مدینہ کے رہنے والوں اوس اور خزرج دو قبیلوں میں صدیوں سے عداوت اور کشت و خون تھا۔ پس جونہی مکہ میں اس آفتاب ہدایت نے طلوع کیا جس طرح تمام عالم کو منور کیا اسی طرح تمام عرب میں محبت اور اتفاق پیدا کردیا۔ اگر یہ ایک ایسا معجزہ نہیں کہ جو تمام معجزات انبیائِ سلف کا عطر ہے تو اور کیا ہے ؟ اس نعمت کو خدا تعالیٰ ظاہر کرتا ہے اور عزیز حکیم میں اس مصلحت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ جس سے روم و ایران پر غلبہ دیا گیا اور آسمانی سلطنت کا جھنڈا قائم کیا گیا۔ ان عربوں کو آسمانی بادشاہت کا لشکر قرار دے کر آنحضرت ﷺ کو اپنی اور اپنی فوج کی مدد کا بھروسہ دلا کر دعوت عام اور مخالفین کے ساتھ جنگ قائم کرنے کا حکم دیتا ہے اور یہ بھی بتلاتا ہے کہ اس پاکباز جماعت کے دس سو پر بھاری (کیونکہ خاصان خدا کی روح کی کہ جو نور الٰہی سے منور ہے باطنی طور پر مخالف پر بڑی ہیبت ہوا کرتی ہے۔ بڑے بڑے بادشاہ اور دنیا کے سردار اولیا اللہ کی ہیبت میں دب جاتے ہیں) مگر خدا نے تمہارے ضعف پر نظر کرکے تم پر تخفیف کردی کہ اگر اس پاکباز لشکر کے دس ہوں گے تو بیس پر اور سو دو سو پر بھاری ہوں گے۔ اس آیت سے یہ بات علما نے ثابت کی ہے کہ ابتدائِ اسلام میں خصوصاً بدر کی جنگ تک اپنے سے دو چند کفار سے مقابلہ کرنے کا حکم تھا مگر اس کے بعد دو چند سے مقابلہ کرنے کا حکم باقی رہ گیا۔ بانہم قوم لایفقہون میں اس طرح بھی اشارہ ہے کہ وہ دار آخرت اور ثواب کو نہیں جانتے اس لئے تم سے برابری نہ کرسکیں گے۔
Top