Tafseer-Ibne-Abbas - Yunus : 2
اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؔؕ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ
اَكَانَ : کیا ہوا لِلنَّاسِ : لوگوں کو عَجَبًا : تعجب اَنْ : کہ اَوْحَيْنَآ : ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف۔ پر رَجُلٍ : ایک آدمی مِّنْھُمْ : ان سے اَنْ : کہ اَنْذِرِ : وہ ڈراتے النَّاسَ : لوگ وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اَنَّ : کہ لَھُمْ : ان کے لیے قَدَمَ : پایہ صِدْقٍ : سچا عِنْدَ : پاس رَبِّهِمْ : ان کا رب قَالَ : بولے الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع) اِنَّ : بیشک ھٰذَا : یہ لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ : کھلا جادوگر
کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک مرد کو حکم بھیجا کہ لوگوں کو ڈر سنا دو اور ایمان لانے والوں کو خوشخبری دے دو کہ ان کے پروردگار کے ہاں انکا سچا درجہ ہے (ایسے شخص کی نسبت) کافر کہتے ہیں کہ یہ تو صریح جادوگر ہے۔
(2) کیا مکہ والوں کو اس بات حیرانی ہوئی کہ ہم نے ان ہی جیسے ایک انسان کے پاس وحی بھیجی تاکہ مکہ والوں کو بھی قرآن کریم کے ذریعے ڈرائے، اور مومنوں کو بہترین ثواب کی خوشخبری سنائیے یا یہ کہ ان کو دنیا میں ایمان لانے کے صلہ میں آخرت میں اے پروردگار کے پاس پہنچ کر پورا مرتبہ ملے گا یا یہ کہ ان کے لیے شرافت و بزرگی والے نبی ہیں یا یہ کہ بلند مرتبہ والے شفیع ہیں مگر کفار مکہ کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ قرآن کریم تو جھوٹا جادو ہے۔ شان نزول : (آیت) ”اکان للناس عجبا“۔ (الخ) ابن جریر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ضحاک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو رسول بناکر بھیجا تو تمام عرب نے یا عرب میں سے کچھ لوگوں نے اس بات کا انکار کیا اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے یہ خلاف ہے کہ کوئی انسان اس کا رسول ہو، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔”اکان للناس“۔ یعنی کیا ان لوگوں کو اس بات سے تعجب ہوا کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کے پاس وحی بھیج دی اور یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ”وما ارسلنا من قبلک الا رجالا ”۔ (الخ) چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کے سامنے کئی دلیلیں پیش کیں تو کہنے لگے کہ اگر انسان ہی کو رسول بنا کر بھیجنا تھا تو معاذ اللہ محمد ﷺ کے علاوہ دوسرا اس کا زیادہ مستحق تھا اس کا خیال تھا کہ مکہ والوں میں سے ولید بن مغیرہ اور طائف والوں میں سے مسعود بن عمر وثقفی ہوتا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ”۔ اھم یقسمون رحمۃ ربک“۔ (الخ)
Top