Tafseer-Ibne-Abbas - Yunus : 94
فَاِنْ كُنْتَ فِیْ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ١ۚ لَقَدْ جَآءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَۙ
فَاِنْ : پس اگر كُنْتَ : تو ہے فِيْ شَكٍّ : میں شک میں مِّمَّآ : اس سے جو اَنْزَلْنَآ : ہم نے اتارا اِلَيْكَ : تیری طرف فَسْئَلِ : تو پوچھ لیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَقْرَءُوْنَ : پڑھتے ہیں الْكِتٰبَ : کتاب مِنْ قَبْلِكَ : تم سے پہلے لَقَدْ جَآءَكَ : تحقیق آگیا تیرے پاس الْحَقُّ : حق مِنْ : سے رَّبِّكَ : تیرا رب فَلَا تَكُوْنَنَّ : پس نہ ہونا مِنَ : سے الْمُمْتَرِيْنَ : شک کرنے والے
اگر تم کو اس (کتاب کے) بارے میں جو ہم نے تم پر نازل کی ہے کچھ شک ہو تو جو لوگ تم سے پہلے کی (اتری ہوئی) کتابیں پڑھ تے ہیں ان سے پوچھ لو۔ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس حق آچکا ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔
(94) اے محمد ﷺ اگر بالفرض آپ اس کتاب یعنی قرآن کریم کے بارے میں کسی شک میں ہوں جس کو ہم نے بذریعہ جبریل امین آپ پر اتارا ہے تو آپ توریت کے پڑھنے والوں یعنی حضرت عبداللہ بن سلام ؓ اور ان کے ساتھیوں سے پوچھ لیجئے، چناچہ رسول اکرم ﷺ کو تو قرآن کریم کے کتاب خداوندی ہونے میں کسی قسم کا ذرہ برابر بھی شک نہیں تھا، اس لیے آپ نے کسی سے نہیں پوچھا بلکہ اللہ تعالیٰ کا مقصود اس کتاب خصوصی سے ذات اقدس ؓ نہیں ہیں بلکہ مراد آپ کی قوم ہے۔
Top