Tafseer-Ibne-Abbas - Ar-Ra'd : 31
وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُیِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى١ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِیْعًا١ؕ اَفَلَمْ یَایْئَسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ لَّوْ یَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِیْعًا١ؕ وَ لَا یَزَالُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا تُصِیْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِیْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى یَاْتِیَ وَعْدُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ۠   ۧ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّ : یہ کہ (ہوتا) قُرْاٰنًا : ایسا قرآن سُيِّرَتْ : چلائے جاتے بِهِ : اس سے الْجِبَالُ : پہاڑ اَوْ : یا قُطِّعَتْ : پھٹ جاتی بِهِ : اس سے الْاَرْضُ : زمین اَوْ : یا كُلِّمَ : بات کرنے لگتے بِهِ : اس سے الْمَوْتٰى : مردے بَلْ : بلکہ لِّلّٰهِ : اللہ کے لیے الْاَمْرُ : کام جَمِيْعًا : تمام اَفَلَمْ يَايْئَسِ : تو کیا اطمینان نہیں ہوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ : اگر اللہ چاہتا لَهَدَى : تو ہدایت دیدیتا النَّاسَ : لوگ جَمِيْعًا : سب وَلَا يَزَالُ : اور ہمیشہ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جو کافر ہوئے (کافر) تُصِيْبُهُمْ : انہیں پہنچے گی بِمَا صَنَعُوْا : اس کے بدلے جو انہوں نے کیا (اعمال) قَارِعَةٌ : سخت مصیبت اَوْ تَحُلُّ : یا اترے گی قَرِيْبًا : قریب مِّنْ : سے (کے) دَارِهِمْ : ان کے گھر حَتّٰى : یہانتک يَاْتِيَ : آجائے وَعْدُ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ لَا يُخْلِفُ : خلاف نہیں کرتا الْمِيْعَادَ : وعدہ
اور اگر کوئی قرآن ایسا ہوتا کہ اس (کی تاثیر) سے پہاڑ چل پڑتے یا زمین پھٹ جاتی یا مردوں سے کلام کرسکتے۔ (تو یہی قرآن ان اوصاف سے متصف ہوتا مگر) بات یہ ہے کہ سب باتیں خدا کے اختیار میں ہیں تو کیا مومنوں کو اس سے اطمینان نہیں ہوا کہ اگر خدا چاہتا تو سب لوگوں کو ہدایت کے راستے پر چلا دیتا۔ اور کافروں پر ہمشہ ان کے اعمال کے بدلے بلا آتی رہے گی یا ان کے مکانات کے قریب نازل ہوتی رہے گی۔ یہاں تک کہ خدا کا وعدہ آپہنچے۔ بیشک خدا وعدہ خلاف نہیں کرتا۔
(31) اگلی آیت عبداللہ بن امیہ مخزومی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان لوگوں نے اپنے باہم مشورہ سے رسول اکرم ﷺ سے کہا تھا کہ مکہ مکرمہ کے پہاڑ اپنے قرآن کی طاقت سے دور کردو اور اس مقام پر پانی کے چشمے پیدا کردو جیسا کہ تم کہتے ہو کہ داؤد ؑ کے لیے تانبے کا چشمہ نرم کردیا گیا تھا اور جیسا کہ بقول آپ کے حضرت سلیمان ؑ کے لیے ہوا مسخر تھی، اسی طریقہ سے ہمارے لیے بھی ہوا کو مسخر کردو کہ ہم اس پر سوار ہو کر ملک شام چلے جایا کریں اور پھر آجایا کریں اور جیسا کہ آپ کے حضرت عیسیٰ ؑ مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے، آپ بھی ہمارے مردوں کو زندہ کر دو ، سو اللہ تعالیٰ ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ اگر محمد ﷺ کے قرآن کے علاوہ کوئی قرآن ایسا ہوتا جس کے ذریعے سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹا دیے جاتے تو اس کے ذریعے سے زمین جلدی طے ہوجاتی یا اس کے ذریعے سے مردہ زندہ کردیے جاتے تو رسول اکرم ﷺ کے قرآن کے ذریعے سے ہوتیں بلکہ ان تمام چیزوں کے کرنے کا سارا اختیار خاص اللہ ہی کو ہے۔ پھر بھی ان لوگوں کو جو کہ رسول اکرم ﷺ اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تھے ان کے دل کو یہ بات نہ لگی کہ اگر اللہ چاہتا تو تمام انسانوں کو اپنے دین سے سرفراز فرما دیتا ، آسمانی کتب اور رسولوں کے منکر یعنی کفار مکہ تو ہمیشہ اس حالت میں رہتے ہیں کہ ان کے کفر کی وجہ سے کوئی نہ کوئی حادثہ حملہ آوری یا بجلی وغیرہ ان پر یا ان کے ساتھیوں پر ان کے شہر مکہ کے قریب عسفان تک نازل ہوتا ہی رہتا ہے، یہاں تک کہ اسی حالت میں مکہ مکرمہ فتح ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتے یعنی مکہ مکرمہ فتح ہوگا یا یہ کہ قیامت قائم ہوگی۔ شان نزول : (آیت) ”ولو ان قرانا سیرت“۔ (الخ) امام طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ کفار مکہ نے رسول اکرم ﷺ سے کہا کہ اگر تم اپنے دعوی میں سچے ہو تو ہمارے پہلے بوڑھے جو مرچکے ہیں ان کو زندہ کرکے دکھلاؤ تاکہ ہم ان سے بات چیت کریں اور ہم سے ان پہاڑوں یعنی مکہ مکرمہ کے پہاڑوں کو جو ہم سے بالکل ملے ہوئے دور کردو، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ، اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے عطیہ عوفی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ کفار نے نبی اکرم ﷺ سے کہا، کاش آپ ہمارے لیے مکہ کے پہاڑوں کو ہٹا دیتے تاکہ ہم پر زمین وسیع ہوجاتی اور ہم اس میں کھیتی وغیرہ کرتے جیسا کہ سلیمان ؑ اپنی قوم کے لیے زمین کو ہوا کے ذریعے کاٹ کردیتے تھے اسی طرح آپ بھی ہمارے لیے زمین کو کاٹ دیجئے یا ہمارے مردوں کو زندہ کردیجیے جیسا کہ حضرت عیسیٰ ؑ اپنی قوم کے لیے مردوں کو زندہ کردیا کرتے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
Top