Tafseer-Ibne-Abbas - Ar-Ra'd : 41
اَوَ لَمْ یَرَوْا اَنَّا نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ اَطْرَافِهَا١ؕ وَ اللّٰهُ یَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ١ؕ وَ هُوَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ
اَوَ : کیا لَمْ يَرَوْا : وہ نہیں دیکھتے اَنَّا نَاْتِي : کہ ہم چلے آتے ہیں الْاَرْضَ : زمین نَنْقُصُهَا : اس کو گھٹائے مِنْ : سے اَطْرَافِهَا : اس کے کنارے ۭوَاللّٰهُ : اور اللہ يَحْكُمُ : حکم فرماتا ہے لَا مُعَقِّبَ : کوئی پیچھے ڈالنے والا نہیں لِحُكْمِهٖ : اس کے حکم کو وَهُوَ : اور وہ سَرِيْعُ : جلد الْحِسَابِ : حساب لینے والا
کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کو اسکے کناروں سے گھٹاتے چلے آتے ہیں ؟ اور خدا (جیسا چاہتا ہے) حکم کرتا ہے کوئی اس کے حکم کا رد کرنیوالا نہیں۔ اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔
(41) کیا مکہ والے اس چیز کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم رسول اکرم ﷺ کے لیے ان کی زمین کو چاروں طرف سے فتح کرتے جارہے ہیں یا یہ کہ ہر طرف سے کمی سے مراد علماء کا اٹھ جانا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی شہروں کی فتوحات اور علمائے کرام کے انتقال کرنے بارے میں فیصلہ فرماتا ہے اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں اور وہ ان پر سخت قسم کا عذاب نازل کرنے والا ہے یا یہ کہ جس وقت وہ ان سے حساب لینا شروع کرے گا تو اس کا حساب بڑی جلدی ہوگا۔
Top