Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hijr : 95
اِنَّا كَفَیْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِیْنَۙ
اِنَّا : بیشک ہم كَفَيْنٰكَ : کافی ہیں تمہارے لیے الْمُسْتَهْزِءِيْنَ : مذاق اڑانے والے
ہم تمہیں ان لوگوں (کے شر) سے بچانے کے لئے جو تم سے اسہزا کرتے ہیں کافی ہیں۔
(95۔ 96) اور یہ لوگ جو آپ پر ہنستے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ انہوں نے اور دوسرے معبود قرار دے رکھے ہیں تو ہم ان ہنسنے والوں کی ہنسی کو ضرور آپ سے دور کردیں گے، سو ان کو ابھی معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ کیا معاملہ فرماتے ہیں۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک دن ایک رات میں ہر ایک پر نیا عذاب نازل کرکے ہلاک کردیا اور یہ بدبخت پانچ تھے چناچہ عاص بن وائل سہمی کو تو کسی چیز نے ڈس لیا اور وہ اسی جگہ فورا امر گیا۔ اور حارث بن قیس سہمی نے نمکین یا تازہ مچھلی کھالی، اس کے بعد اسے پیاس لگی، اس نے پانی پی لیا، بدبخت کا اس سے پیٹ پھٹ گیا اور اسی جگہ پر مرگیا۔ اور اسود بن عبدالمطلب کا سر حضرت جبریل ؑ نے درخت سے اور اس کا منہ کانٹوں سے ٹکرا دیا اور وہ اسی مرگیا، اور اسود بن عبد یغوث سخت گرمی میں باہر نکلا تو اس کو زہر چڑھ گیا جس سے حبشی کی طرح سیاہ فام ہوگیا اپنے گھر واپس آیا تو گھروالوں نے دروازہ نہیں کھولا تو اس نے اپنا سر دروازہ پر مارا اسی سے مرگیا، اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کرے۔ اور ولید بن مغیرہ مخزومی کے تیر کی نوک لگ گئی، اسی سے مرگیا، اللہ تعالیٰ ان بدبختوں کو اپنی رحمت سے دور کرے، سب کے سب مرنے کے وقت یہی کہہ رہے تھے کہ مجھے محمد ﷺ کے پروردگار نے مار ڈالا۔ شان نزول : (آیت) ”انا کفینک“۔ (الخ) بزار، طبرانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کا مکہ مکرمہ میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا تو وہ بدبخت آپ کی گدی میں کو نچے مارنے لگے کہ یہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں نبی ہوں اور میرے ساتھ جبریل امین ؑ نے اپنی انگلی سے ایک کونچا مارا جو ان کے جسموں میں ناخن کی طرح لگا اور اس سے ایسے بدبودار زخم ہوئے کہ کوئی ان کے قریب بھی نہ جاسکتا (اور اسی حالت میں مرگئے) تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی یعنی یہ لوگ جو ہنستے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرا معبود قرار دیتے ہیں ان سے آپ کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔
Top