Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nahl : 83
یَعْرِفُوْنَ نِعْمَتَ اللّٰهِ ثُمَّ یُنْكِرُوْنَهَا وَ اَكْثَرُهُمُ الْكٰفِرُوْنَ۠   ۧ
يَعْرِفُوْنَ : وہ پہچانتے ہیں نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ ثُمَّ : پھر يُنْكِرُوْنَهَا : منکر ہوجاتے ہیں اسکے وَاَكْثَرُهُمُ : اور ان کے اکثر الْكٰفِرُوْنَ : کافر (جمع) ناشکرے
یہ خدا کی نعمتوں سے واقف ہیں مگر (واقف ہو کر) ان سے انکار کرتے ہیں اور یہ اکثر ناشکرے ہیں۔
(83) چناچہ جب رسول اکرم ﷺ نے کفار کو یہ نعمتیں یاد دلائیں تو کہنے لگے بیشک محمد ﷺ یہ سب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں، اس کے بعد پھر اس چیز کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے ہمارے بتوں کی سفارش سے یہ نعمتیں ملی ہیں، اسی چیز کو اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ خود اقرار کر رہے ہیں کہ یہ سب نعمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر پھر کہتے ہیں کہ ہمارے بتوں کی سفارش سے ایسا ہوا ہے ان اللہ تعالیٰ کے منکر اور کافر ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”۔ یعرفون نعمت اللہ“۔ (الخ) ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ایک اعرابی رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے آپ سے کچھ پوچھا، آپ نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (آیت) ”واللہ جعل لکم من بیوتکم“۔ (الخ) وہ کہنے لگا ٹھیک ہے، پھر آپ نے اس کے سامنے اگلی آیت ”۔ وجعل لکم من جلود الانعام بیوتا“۔ تا۔ ویوم اقامتکم“۔ (الخ) تلاوت فرمائی، وہ پھر کہنے لگا ٹھیک ہے، پھر آپ نے اس کے سامنے اور آیتیں پڑھیں ہر ایک آیت پر وہ کہتا تھا ٹھیک ہے، یہاں تک کہ آپ اس آیت پر پہنچے۔ (آیت) ”کذالک یتم نعمۃ علیکم لعلکم تسلمون“۔ یہ سن کر وہ اعرابی رخ پھیر کرچلایا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی یعنی اللہ تعالیٰ کی نعمت کو پہچانتے ہیں، پھر اس کے منکر ہوتے ہیں اور زیادہ ان میں ناشکرگزار ہیں۔
Top