Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Kahf : 110
قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠   ۧ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَآ اَنَا : اس کے سوا نہیں میں بَشَرٌ : بشر مِّثْلُكُمْ : تم جیسا يُوْحٰٓى : وحی کی جاتی ہے اِلَيَّ : میری طرف اَنَّمَآ : فقط اِلٰهُكُمْ : تمہارا معبود اِلٰهٌ : معبود وَّاحِدٌ : واحد فَمَنْ : سو جو كَانَ : ہو يَرْجُوْا : امید رکھتا ہے لِقَآءَ : ملاقات رَبِّهٖ : اپنا رب فَلْيَعْمَلْ : تو اسے چاہیے کہ وہ عمل کرے عَمَلًا : عمل صَالِحًا : اچھے وَّ : اور لَا يُشْرِكْ : وہ شریک نہ کرے بِعِبَادَةِ : عبادت میں رَبِّهٖٓ : اپنا رب اَحَدًا : کسی کو
کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود (وہی) ایک معبود ہے تو جو شخص اپنے پروردگار سے ملنے کی امید رکھے چاہئے کہ عمل نیک کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے
(110) اور آپ ان سے فرما دیجیے کہ میں تم ہی جیسا آدمی ہوں میرے پاس بذریعہ جبریل امین ؑ یہ وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے جس کا کوئی شریک نہیں سو جس شخص کو مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کو منہ دکھانے کا ڈر ہو وہ خلوص کے ساتھ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کی اطاعت میں کسی کو شریک نہ کرے یہ آیت کریمہ جندب بن زہیر عامری کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ شان نزول : (آیت) ”۔ فمن کان یرجوا لقآء ربہ“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ اور ابن ابی الدنیا ؒ نے ”کتاب الاخلاص“ میں طاؤس سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اعمال کرتا ہوں اور مجھے اس بات کی تمنا ہے کہ میرا ٹھکانا دکھادیا جائے، آپ نے اس کو کوئی جواب نہیں یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی یعنی سو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھے، وہ نیک کام کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے یہ روایت مرسل ہے اور امام حاکم نے اسی روایت کو متدرک میں بواسطہ طاؤس حضرت ابن عباس ؓ سے موصولا شرط شیخین پر روایت کیا ہے اور ابن ابی حاتم ؒ نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ مسلمانوں میں جہاد کرتا تھا اور اسے اس بات کی خواہش تھی کہ اس کا ٹھکانا دکھا دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ابو نعیم ؒ اور ابن عساکر ؒ نے اپنی تاریخ میں بواسطہ سدی صغیر ؒ، کلبی ؒ، ابو صالح ؒ، ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جندب بن زبیر نے کہا کہ جب آدمی نماز پڑھے یا روزہ رکھے یا کوئی صدقہ و خیرات کرے اور اس پر اس کی تعریف کی جائے اور پھر وہ لوگوں کی اس تعریف سے اپنی نیکیوں میں اضافہ کرے تو اس کا کیا حکم ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آزور رکھے وہ نیک کام کرتا رہے۔
Top