Tafseer-Ibne-Abbas - Maryam : 64
وَ مَا نَتَنَزَّلُ اِلَّا بِاَمْرِ رَبِّكَ١ۚ لَهٗ مَا بَیْنَ اَیْدِیْنَا وَ مَا خَلْفَنَا وَ مَا بَیْنَ ذٰلِكَ١ۚ وَ مَا كَانَ رَبُّكَ نَسِیًّاۚ
وَمَا : اور ہم نَتَنَزَّلُ : نہیں اترتے اِلَّا : مگر بِاَمْرِ : حکم سے رَبِّكَ : تمہارا رب لَهٗ : اس کے لیے مَا بَيْنَ اَيْدِيْنَا : جو ہمارے ہاتھوں میں ( آگے) وَمَا : اور جو خَلْفَنَا : ہمارے پیچھے وَمَا : اور جو بَيْنَ ذٰلِكَ : اس کے درمیان وَمَا : اور نہیں كَانَ : ہے رَبُّكَ : تمہارا رب نَسِيًّا : بھولنے والا
اور فرشتوں نے پیغمبر کو جواب دیا کہ ہم تمہارے پروردگار کے حکم کے سوا اتر نہیں سکتے جو کچھ ہمارے آگے اور جو پیچھے ہے اور جو ان کے درمیان ہے سب اسی کا ہے اور تمہارا پروردگار بھولنے والا نہیں ہے
(64) اور اے محمد ﷺ ہم آسمان سے وقتا فوقتا سوائے آپ کے رب کے حکم کے نہیں آسکتے، قریش نے جب آپ سے روح، ذوالقرنین اور اصحاب کہف کے بارے میں دریافت کیا تھا اور وحی اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں کے لیے روک لی تھی تو جب جبریل امین وحی لے کر آئے تب آپ نے ان سے تاخیر کی وجہ دریافت کی اس وقت انہوں نے یہ جواب دیا امور آخرت اور امور دنیا اور دونوں کے درمیان جو کچھ ہوگا وہ سب چیزیں اسی کی ملکیت میں داخل ہیں اور جب سے آپ کے رب نے وحی کا سلسلہ شروع کیا ہے، آپ کا پروردگار آپ کو بھولنے والا نہیں۔ شان نزول : (آیت) ”وما نتنزل الا بامر ربک“۔ (الخ) امام بخاری ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حضرت جبریل امین سے درخواست کی کہ آپ ہماری ملاقات کے لیے جلدی جلدی کیوں نہیں آتے ذرا جلدی جلدی آیا کریں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم سوائے آپ کے رب کے حکم کے وقتا فوقتا نہیں آسکتے، اور ابن ابی حاتم ؒ نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جبریل امین ؑ چالیس دن تک تشریف نہیں لائے بقیہ روایت حسب سابق ہے اور ابن مردویہرحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے جبریل امین سے دریافت کیا کہ کون ساقطعہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ عزیز ہے اور کون سا اس کی نظر میں زیادہ مرغوب ہے جبرئیل امین ؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے دریافت کیے بغیر میں کچھ نہیں جانتا چناچہ جبریل دوبارہ تشریف لائے مگر دیر سے آئے اس پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم نے آنے میں دیر کی جس کی وجہ سے مجھے یہ خیال ہوا کہ مجھ سے کچھ ناراضگی ہے اس پر جبریل امین ؑ نے فرمایا ہم سوائے آپ کے رب کے حکم کے وقتا فوقتا نہیں آسکتے۔ اور ابن اسحاق ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ قریش نے جب رسول اکرم ﷺ سے اصحاب کہف کے بارے میں پوچھا تو پندرہ راتوں تک اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں کوئی وحی نہیں بھیجی، جب جبریل امین ؑ آئے تو آپ نے ان سے فرمایا دیر سے آئے، اس پر انہوں نے یہ فرمایا۔
Top