Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 150
وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ١ؕ وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ١ۙ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْكُمْ حُجَّةٌ١ۙۗ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ١ۗ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَ اخْشَوْنِیْ١ۗ وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَۙۛ
وَمِنْ حَيْثُ : اور جہاں سے خَرَجْتَ : آپ نکلیں فَوَلِّ : پس کرلیں وَجْهَكَ : اپنا رخ شَطْرَ : طرف الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ : مسجد حرام وَحَيْثُ مَا : اور جہاں کہیں كُنْتُمْ : تم ہو فَوَلُّوْا : سو کرلو وُجُوْھَكُمْ : اپنے رخ شَطْرَهٗ : اس کی طرف لِئَلَّا : تاکہ نہ يَكُوْنَ : رہے لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے عَلَيْكُمْ : تم پر حُجَّةٌ : کوئی دلیل اِلَّا : سوائے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ ظَلَمُوْا : بےانصاف مِنْهُمْ : ان سے فَلَا تَخْشَوْھُمْ : سو تم نہ ڈرو ان سے وَاخْشَوْنِيْ : اور ڈرو مجھ سے وَلِاُتِمَّ : تاکہ میں پوری کردوں نِعْمَتِىْ : اپنی نعمت عَلَيْكُمْ : تم پر وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَهْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
اور تم جہاں سے نکلو مسجد محترم کی طرف منہ (کر کے نماز پڑھا کرو) اور (مسلمانو !) تم جہاں ہوا کرو اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو (یہ تاکید) اس لئے (کی گئی ہے) کہ لوگ تم کو کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں مگر ان میں سے جو ظالم ہیں (وہ الزام دیں تو دیں) سو ان سے مت ڈرنا اور مجھی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو
(150) اور جس مقام پر بھی ہو خواہ پانی کا علاقہ ہو یا خشکی کا مسجد حرام کی طرف چہرہ کرلو تاکہ اس قبلہ کی تبدیلی میں حضرت عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھیوں پر حجت نہ ہو کیوں کہ ان کی کتاب میں ہے کہ حرم محترم حضرت ابراہیم ؑ کا قبلہ ہے، لہٰذا جب تم اس کی طرف نماز ادا کرو گے تو ان کے لیے تمہارے خلاف کوئی حجت قائم نہیں ہوگی۔ اور نہ کعب بن اشرف اور اس کے ساتھی اور مشرکین کے لیے کوئی دلیل ہوگی جنہوں نے اپنی باتوں میں حد سے تجاوز کیا ہے قبلہ کی تبدیلی کے بارے میں ان سے خوف نہ کھاؤ بلکہ اس امر کے چھوڑنے پر مجھ سے خوف کھاؤ تاکہ قبلہ کے ذریعہ میں اپنے احسانات تم پر پورے کر دوں، جیسا کہ میں نے دین کو تمہارے لیے کامل ومکمل کردیا اور تاکہ قبلہ ابراہیمی کی طرف تمہیں رہنمائی ہو۔ شان نزول : (آیت) ”ومن حیث خرجت“ (الخ) ابن جریر ؓ نے اپنی سندوں کے ساتھ سدی ؓ کے حوالہ سے روایت کی ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ ”بیت المقدس“ کی طرف نماز پڑھنے کے بعد کعبہ شریف کی طرف تبدیل ہوگئے تو مشرکوں نے اہل مکہ سے کہا کہ العیاذ باللہ محمد ﷺ اپنے دین کے بارے میں پریشان ہوگئے تو اپنے قبلہ سے تمہارے قبلہ کی جانب متوجہ ہورہے ہیں اور یہ بات انہوں نے سمجھ لی ہے کہ تم ان سے زیادہ سیدھے راستے پر ہو اور وہ عنقریب تمہارا دین قبول کرلیں گے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت ”لئلا یکون للناس (الخ) نازل فرمائی یعنی تاکہ تمہارے مقابلے میں باتیں نہ بنائیں۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top