Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 195
وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ١ۛۖۚ وَ اَحْسِنُوْا١ۛۚ اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
وَاَنْفِقُوْا : اور تم خرچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ : راستہ اللّٰهِ : اللہ وَلَا : اور نہ تُلْقُوْا : ڈالو بِاَيْدِيْكُمْ : اپنے ہاتھ اِلَى : طرف (میں) التَّهْلُكَةِ : ہلاکت وَاَحْسِنُوْا : اور نیکی کرو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والوں کو
اور خدا کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بیشک خدا نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے
(195) عمرہ قضا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے سے اپنا ہاتھ نہ روکو تاکہ تم ہلاکت میں نہ پڑجاؤ، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کو خود ہلاکت میں مت مبتلا کرو اور ایک یہ تفسیر کی گئی ہے کہ نیک کاموں سے مت رکو کہ کہیں تم ہلاکت میں نہ پڑجاؤ یعنی رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہو کر پھر ہلاکت میں گرفتار ہوجاؤ، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرو، اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھو اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ راہ خدا میں اچھی طرح خرچ کرو اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں، (آیت) ”۔ وقاتلوا فی سبیل اللہ“۔ سے لے کر یہاں تک یہ آیات ان حضرات کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو حدیبیہ سے اگلے سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ احرام کی حالت میں عمرہ قضا کرنے کے لیے تشریف لے جارہے تھے۔ شان نزول : (آیت) ”وانفقوفی سبیل اللہ“ (الخ) امام بخاری ؒ نے حضرت حذیفہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت مبارکہ نفقہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور امام ابو داؤد اور ترمذی ؒ نے سحت کے ساتھ اور نیز امام حاکم اور ابن حبان ؒ نے ابوایوب ؓ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے فرمایا اے گروہ انصار یہ آیت کریمہ ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہے جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت عطا فرما دی اور اس کے مددگار زیادہ ہوگئے تو ہم میں سے بعض نے بعض سے خفیہ طور پر یہ کہا کہ ہمارے مال یوں ہی ضائع ہورہے ہیں اور آب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو عزت دے دی ہے لہٰذا اگر اب ہم اپنے مال کا خیال کریں اور ضائع ہونے سے ان کی حفاظت کریں تو بہتر ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ نے ہماری باتوں کی تردید میں یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال بھی خرچ کرو اور اپنے آپ کو تباہی میں نہ ڈالو تو مال کی ہلاکت کی نگرانی اور اس کی حفاظت جہاد کو چھوڑنا ہے۔ طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ ابوجبیرہ بن ضحاک ؒ سے روایت کیا ہے کہ انصار صدقہ و خیرات کرتے تھے اور جتنی اللہ تعالیٰ توفیق دیتے غرباء کو مال بھی دیتے تھے ایک مرتبہ ان پر کچھ تنگی آگئی تو وہ اس کام سے رک گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ اتار دی کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، نیز امام طبرانی ؒ ہی نے صحیح سند کے ساتھ نعمان بن بشیر ؒ سے روایت کیا ہے کہ انسان سے گناہ سرزد ہوجاتا تو وہ اپنے دل میں خیال کرتا ہے کہ خدا اسے معاف نہیں فرمائے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اتاری کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اس حدیث کے لیے ایک اور گواہ بھی موجود ہے جس کو امام حاکم ؒ نے حضرت براء سے روایت کیا ہے (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top