Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 207
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ رَءُوْفٌۢ بِالْعِبَادِ
وَ : اور مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَّشْرِيْ : بیچ ڈالتا ہے نَفْسَهُ : اپنی جان ابْتِغَآءَ : حاصل کرنا مَرْضَاتِ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ رَءُوْفٌ : مہربان بِالْعِبَادِ : بندوں پر
اور کوئی شخص ایسا ہے کہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتا ہے اور خدا بندوں پر بہت مہربان ہے
(207) اور بعض حضرات اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے اپنی جان کو اپنے مال کے بدلے خریدتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ صہیب بن سنان ؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں اتری ہے ان حضرات نے اپنی جانوں کو اپنے مال کے بدلے مکہ والوں سے خریدا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت ہی مہربانی فرمانی فرمانے والا ہے یہ آیت کریمہ حضرت عمار بن یاسر ؓ اور حضرت سمیہ ؓ کے والدین کے بارے میں نازل ہوئی، ان حضرات کو مشرکین مکہ نے شہید کردیا تھا۔ شان نزول : (آیت) ”ومن الناس من یشری“۔ (الخ) حارث بن ابی امام ؒ نے اپنی مسند میں اور ابن ابی حاتم ؒ نے سعید بن مسیب ؒ سے روایت کیا ہے کہ حضرت صہیب ؓ رسول اکرم ﷺ کی طرف ہجرت کرکے روانہ ہوئے تو قریش کی ایک جماعت نے ان کا پچھا کیا، حضرت صہیب ؓ اپنی سواری سے اتر گئے، اور ان کے ترکش میں جو تیر تھے وہ سب نکال لیے اور فرمایا اے قریش کی جماعت تمہیں معلوم ہے کہ میں تم سب زیادہ تیر انداز ہوں اور اللہ کی قسم تم لوگ میرے قریب اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ میں اپنے تمام تیر تمہیں نہ مار دوں اور اس کے بعد جتنی میرے ہاتھ میں طاقت باقی رہے گی اپنی تلوار سے تم سے جہاد کروں گا۔ اب جو تمہاری مرضی ہو کرو اور تم چاہو تو میں تمہیں اپنا وہ مال بتا دیتا ہوں جو مکہ میں ہے اور تم میرا پیچھا چھوڑ دو۔ قریش اس پر رضا مند ہوگئے، جب حضرت صہیب ؓ مدینہ منورہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ابویحیی تمہاری تجارت سود مند رہی، ابویحیٰ تمہاری تجارت کامیاب ہوگئی اور یہ آیات نازل ہوئیں، (آیت) ”ومن الناس من یشری“ (الخ) اور امام حاکم ؒ نے اپنی مستدرک میں اسی طرح ابن مسیب عن صہیب ؓ کے ذریعہ سے موصولا روایت کیا ہے اور امام حاکم ؒ نے بھی اسی طرح عکرمہ ؓ کے مراسیل سے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم ؒ ہی نے بواسطہ حماد بن سلمہ ثابت ؒ ، حضرت انس ؓ سے روایت کیا ہے اور اس میں آیت کے نازل ہونے کی وضاحت موجود ہے اور امام حاکم ؒ نے فرمایا ہے یہ حدیث مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ اور ابن جریر ؒ نے عکرمہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت صہیب ؓ ابوداؤد ؓ ، جندب بن ابی السکن کے بارے میں اتری ہے (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح) تفسیر سورة بقرۃ آیات (208) تا (212)
Top