Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Baqara : 232
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ ذٰلِكَ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَ اَطْهَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب طَلَّقْتُمُ : تم طلاق دو النِّسَآءَ : عورتیں فَبَلَغْنَ : پھر وہ پوری کرلیں اَجَلَهُنَّ : اپنی مدت (عدت) فَلَا : تو نہ تَعْضُلُوْھُنَّ : روکو انہیں اَنْ : کہ يَّنْكِحْنَ : وہ نکاح کریں اَزْوَاجَهُنَّ : خاوند اپنے اِذَا : جب تَرَاضَوْا : وہ باہم رضامند ہو جائیں بَيْنَهُمْ : آپس میں بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق ذٰلِكَ : یہ يُوْعَظُ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس سے مَنْ : جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے يُؤْمِنُ : ایمان رکھتا بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور لْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت پر ذٰلِكُمْ : یہی اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَكُمْ : تمہارے لیے وَاَطْهَرُ : اور زیادہ پاکیزہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو، اس (حکم) سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے یہ تمہارے لئے نہایت خوب اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
(232) اور جب تم عورتوں کو ایک طلاق یا دو طلاقیں دے دو اور پھر ان کی عدت پوری ہوجائے اور وہ اپنے پہلے شوہروں کے پاس حق مہر اور نئے نکاح کے ساتھ جانا چاہیں تو ان کو اپنے پہلے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو اور (آیت) ”تعضلوھن“۔ ضاد کے کسرہ کے ساتھ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مت روکو، جب کہ وہ آپس میں مہر اور نکاح کے لیے ساتھ اتفاق کرلیں ان مذکورہ باتوں سے نصیحت کی جاتی ہے اور یہ باتیں تمہارے لیے درستگی کا ذریعہ ہیں اور تمہارے اور ان عورتوں کے دلوں کو بدگمانی اور عدوات سے پاک کرنے والی ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ عورت کو خاوند سے کس قدرت محبت ہے جبکہ تم یہ نہیں جانتے۔ یہ آیت مبارکہ معقل بن یسار مزنی ؓ کے بارے میں اتری ہے انہوں نے اپنی بہن جمیلہ کو ان کے پہلے خاوند عبداللہ بن عاصم ؓ کے پاس حق مہر اور نئے نکاح کے ساتھ جانے سے روکا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اس چیز سے روک دیا۔ شان نزول : (آیت) ”واذا طلقتم النساء“۔ (الخ) امام بخاری ؒ ، ابوداؤد ؒ ترمذی ؒ وغیرہ نے حضرت معقل بن یسار ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے اپنی بہن کی مسلمانوں میں سے ایک شخص کے ساتھ شادی کردی، ان کی بہن اس کے پاس تھیں، اس نے اس کو ایک طلاق رجعی دے دی اور پھر رجوع نہ کیا، تاآنکہ عدت گزر گئی، اس کے بعد ان کی بہن کی چاہت اسی کی طرف ہوئی اور اس کی چاہت ان کی بہن کی طرف ہوئی، غرض کہ اس نے پھر اس سے نکاح کرنے کا پیغام بھیجوا دیا، حضرت معقل ؓ نے غیرت کے جوش میں کہا کہ میں نے اولا تمہیں اس کے ساتھ عزت دی اور پھر اس سے تمہاری شادی کردی مگر تم نے اس کو طلاق دی (اور پھر رجوع نہ کیا) اللہ کی قسم وہ اب تمہارے نکاح میں ہرگز نہیں جاسکتی، اللہ تعالیٰ نے ان دونوں میاں بیوی کی آپس کی خواہش اور حاجت کو پہچان لیا اس نے فورا یہ آیت کریمہ (آیت) ”واذا طلقتم النساء“۔ سے ”لاتعلمون“۔ تک نازل فرمائی، جب حضرت معقل ؓ نے یہ آیت سنی تو فرمایا کہ میرے پروردگار نے اس کی خواہش کو سن لیا، اس کے بعد ان کو بلایا اور فرمایا کہ میں پھر اپنی بہن کو تمہارے نکاح میں دے کر تمہیں عزت دیتا ہوں۔ ابن مردویہ ؓ نے بہت سے طریقوں سے اس روایت کو نقل کیا ہے پھر بعد میں سدی ؒ کے ذریعہ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق نازل ہوئی ہے، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی چچا زاد بہن تھیں، ان کے خاوند نے ان کو طلاق دے دی، اور ان کی عدت بھی پوری ہوگئی، اس کے بعد ان سے پھر شادی کرنے کا ارادہ کیا، حضرت جابر ؓ نے انکار کیا کہ اولا میری چچا زاد بہن کو طلاق دے دی، اور اب پھر اس سے دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے اور ان کی بہن بھی اسی خاوند سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی تھیں، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top