Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 44
اَمْ یَقُوْلُوْنَ بِهٖ جِنَّةٌ١ؕ بَلْ جَآءَهُمْ بِالْحَقِّ وَ اَكْثَرُهُمْ لِلْحَقِّ كٰرِهُوْنَ
اَمْ : یا يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں بِهٖ : اس کو جِنَّةٌ : دیوانگی بَلْ : بلکہ جَآءَهُمْ : وہ آیا ان کے پاس بِالْحَقِّ : ساتح حق بات وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان میں سے اکثر لِلْحَقِّ : حق سے كٰرِهُوْنَ : نفر رکھنے والے
کیا یہ کہتے ہیں کہ اسے سودا ہے (نہیں) بلکہ وہ ان کے پاس حق کو لے کر آئے ہیں اور ان میں سے اکثر حق کو ناپسند کرتے ہیں
ام یقولون بہ جنۃ یا یہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول کو جنون ہے یہ بھی اَمْ منقطعہ ہے مطلب یہ ہے کہ کیا یہ لوگ رسول اللہ ﷺ : کو دیوانہ کہتے ہیں حالانکہ ان کو علم ہے کہ اللہ کے رسول کی دانش بڑی وزنی اور نظر و فکر کی گہرائی سب سے زیادہ ہے ایسے شخص کی طرف جنون کی نسبت سوائے دیوانہ یا عنادی دشمن کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمام مقامات پر ام متصلہ ہو اور جملہ اَفَلَمْ یَدَّبَّرُوْایہ جملۂ مستانفہ ہے اس صورت میں مطلب اس طرح ہوگا کہ جب آیت قَدْ کَانَتْ اٰیٰتِیْ تُتْلٰی عَلَیْکُمْ ۔۔ سننے والوں نے سنی تو خواہ مخواہ دل میں سوال پیدا ہوا کہ آخر قرآن سے کترانے ‘ الٹے پاؤں لوٹنے ‘ غرور کرنے اور بےہودہ بکواس کی وجہ کیا ہے۔ کیا قرآن پر انہوں نے غور نہیں کیا یا ان کو اس سے پہلے گزشتہ زمانہ میں کسی پیغمبر کے آنے کی اطلاع نہیں ملی یا اس نبی کی امانت داری اور سچائی وغیرہ کو یہ پہچانتے نہیں۔ یا یہ رسول اللہ ﷺ کو دیوانہ خیال کرتے ہیں اس کے جواب میں اللہ نے فرمایا ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بل جآء ہم بالحق واکثرہم للحق کرہوں۔ بلکہ (اس عناد اور جھگڑے کا سبب یہ ہے کہ) یہ رسول ان کے پاس حق بات لے کر آئے ہیں اور ان میں سے اکثر لوگ حق سے نفرت کرنے والے ہیں۔ اَلحَقِّواقعی سچی بات ‘ جس کی سچائی عقلاً نقلاً ظاہر ہو اس کی صحت سورج کی طرح ناقابل انکار ہو۔ اَکْثَرُہُمْ لِلْحَقِّ کٰرِہُوْنَ ۔ ان میں اکثر لوگ محض عناد یا سرداری کی خواہش اور حکومت کی طمع یا خواہشات کے پرستار ہونے یا جاہلوں کی تقلید کرنے یا رسم و رواج کی پابندی کی وجہ سے حق سے نفرت کرتے ہیں۔ تقاضائے دانش و فہم باعث نفرت نہیں۔ اکثر کا لفظ اس لئے ذکر کیا کہ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے اپنی قوم کے خوف یا فہم و دانش کی کمی یا غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے ایمان کو ترک کیا تھا ان کے دلوں میں حق سے عناد نہ تھا۔
Top