Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 100
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوْا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ یَرُدُّوْكُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ كٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوْٓا : ایمان لائے اِنْ : اگر تُطِيْعُوْا : تم کہا مانو گے فَرِيْقًا : ایک گروہ مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : دی گئی کتاب يَرُدُّوْكُمْ : وہ پھیر دینگے تمہیں بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارے ایمان كٰفِرِيْنَ : حالت کفر
مومنو ! اگر تم اہل کتاب کے کسی فریق کا کہا مان لو گے تو وہ تمہیں ایمان لانے کے بعد کافر بنادیں گے
(100۔ 101) یہ آیت مبارکہ حضرت عمار ؓ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جب کہ یہودیوں نے ان کو اپنے دین کی دعوت دی تھی، اہل کتاب کی ایک جماعت تمہارے ایمان لانیکے بعد یہ چاہتی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے منکر ہوجاؤ اور تم کسیے اللہ تعالیٰ کے منکر ہوسکتے ہو حلان کہ تم پر قرآن کریم کے اوامرو نواہی پڑھے جاتے ہیں اور تمہارے پاس رسول اکرم ﷺ موجود ہیں لہٰذا جو شخص دین الہی اور اس کی کتاب پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہا تو ایسا شخص ضرور راہ راست پر آتا ہے اور اس پر استقامت حاصل ہوتی ہے، یہ آیت حضرت معاذ اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی اور پھر اس کے بعد دوبارہ قبیلہ اوس اور خزرج کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان میں سے ثعلبہ بن غنم ؓ اور سعد بن ابی زیادہ ؓ نے اپنے زمانہ جاہلیت کی قتل و غارت گری پر فخر کیا تھا۔ شان نزول : (آیت) ”یایھا الذین امنوا“۔ (الخ) فریابی ؒ اور ابن ابی حاتم ؒ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ قبیلہ اوس اور خزرج کے درمیان زمانہ جاہلیت سے لڑائی تھی ایک دن وہ سب مل کر بیٹھے اور آپس کے جھگڑے کا ذکر کرنے لگے یہاں تک کہ غصہ میں بھر گئے اور ایک دوسرے پر ہتھیار لے کر کھڑے ہوگئے اس پر (آیت) ”وکیف تکفرون“۔ اور اس کے بعد والی آیات نازل ہوئیں۔ ابن اسحاق ؒ اور ابو الشیخ ؒ نے زید بن اسلم ؒ سے روایت نقل کی ہے کہ شاس بن قیس یہودی اوس اور خزرج کے پاس سے گزرا اور ان کو آپس میں باتیں کرتا ہوا دیکھ کر حسد کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ان میں کس قدر دشمنی تھی اور اب آپس میں کس قدر محبت ہے، چناچہ اس سے برداشت نہ ہوا اس نے آکر ایک یہودی نوجوان کو حکم دیا کہ اوس و خزرج کے مسلمانوں کی مجلس میں جا کر بیٹھے اور جنگ ”بعاث“ کا ذکر چھیڑے اور ان کو اور ان کو وہ وقت یاد دلائے چناچہ اس نے آکر ایسا ہی کیا اس کی یہ باتیں سن کر انہوں نے آپس میں لڑائی اور ایک دوسرے پر فخر کرنا شروع کیا، قبیلہ اوس سے اوس بن قیظی اور خزرج سے جبار بن جعفریہ دونوں آدمی کھڑے ہوگئے اور آپس میں گفتگو کی جس سے دونوں قبائل غصہ میں تیار ہوگئے، اس چیز کی اطلاع رسول اکرم ﷺ کو پہنچی، آپ ﷺ وہاں تشریف لائے اور ان کو نصیحت کرکے آپس میں صلح کرا دی۔ ان سب حضرات نے آپ کی بات کو بسر و چشم سنا اور اطاعت وفرمانبرداری کے لیے اپنی گردنیں جھکا دی، اللہ تعالیٰ نے قبیلہ اوس و خزرج اور جو ان کے ساتھ تھے ان کے بارے میں (آیت) ”یایھا الذین امنوا“۔ (الخ) یہ آیت کریمہ نازل فرمائی اور شاس بن قیس کے بارے میں (آیت) ”یا اھل الکتاب لم تصدون“۔ والی آیت نازل فرمائی۔
Top