Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 172
اَلَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِلّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الْقَرْحُ١ۛؕ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا مِنْهُمْ وَ اتَّقَوْا اَجْرٌ عَظِیْمٌۚ
اَلَّذِيْنَ : جن لوگوں نے اسْتَجَابُوْا : قبول کیا لِلّٰهِ : اللہ کا وَالرَّسُوْلِ : اور رسول مِنْۢ بَعْدِ : بعد مَآ : کہ اَصَابَھُمُ : پہنچا انہیں الْقَرْحُ : زخم لِلَّذِيْنَ : ان کے لیے جو اَحْسَنُوْا : انہوں نے نیکی کی مِنْھُمْ : ان میں سے وَاتَّقَوْا : اور پرہیزگاری کی اَجْرٌ : اجر عَظِيْمٌ : بڑا
جنہوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا و رسول (کے حکم) کو قبول کیا جو لوگ ان میں نیکوکار اور پرہیزگار ہیں ان کے لئے بڑا ثواب ہے
(172) بدر صغری لڑائی کے لیے تمام صحابہ کرام ؓ رسول اللہ ﷺ کے فرمانے پر فورا کمر بستہ ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ اسی کا تذکرہ فرماتے ہیں کہ جن حضرات نے باوجودیکہ ان کو احد میں زخم لگا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے فرمانے پر بدر صغری کے لیے فورا تیار ہوگئے، ایسے حضرات جو رسول اللہ ﷺ کا ساتھ دیں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے رسول کی مخالفت سے بچیں ان کے لیے جنت میں بڑا ثواب ہے۔ شان نزول : الذین استجابوا للہ والرسول“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے عوفی کے ذریعہ سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ احد کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کے دل میں رعب ڈال دیا وہ مکہ مکرمہ لوٹا، رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ابوسفیان تم لوگوں سے گھبرا گیا ہے اور مکہ وہ جس وقت لوٹا اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا اور احد کا واقعہ شوال میں پیش آیا تھا اور تاجر ذی قعدہ میں مدینہ منورہ آتے تھے اور راستہ میں بدر صغری میں قیام کرتے تھے، چناچہ وہ احد کے واقعہ کے بعد آئے اور مسلمان زخمی اور تھکے ہوئے تھے۔ رسول اکرم ﷺ نے لوگوں میں اعلان کیا کہ آپ ﷺ کے ساتھ چلیں، شیطان نے آکر اپنے دوستوں کو ڈرایا کہ کفار نے بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے اور کچھ لوگوں نے حضور اکرم ﷺ کے ساتھ چلنے سے انکار کروا دیا آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں جہاد کے لیے ضرور جاؤں گا اگرچہ میرے ساتھ کوئی بھی نہ جائے۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عمر فاروق ؓ ، حضرت عثمان غنی ؓ ، حضرت علی مرتضی ؓ، حضرت زبیر، حضرت سعد ؓ حضرت طلحہ ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ، حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ، حضرت حذیفہ بن یمان ؓ ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح ؓ غرض کہ ستر صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کے ساتھ چلنے پر لبیک کہی چناچہ یہ حضرات رسول اکرم ﷺ کے ساتھ ابوسفیان کی تلاش میں نکلے تاآنکہ مقام صغری پر پہنچے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ نیز امام طبرانی ؒ نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب مشرکین احد سے واپس ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ نہ محمد ﷺ کو تم نے قتل کیا اور نہ لڑکیوں کو تم نے قید کیا تم تو بہت ہی ناکامی کے ساتھ واپس آرہے ہو پھر لوٹو، رسول اکرم ﷺ کو ان کی اس گفتگو کی اطلاع ہوئی آپ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ میں جہاد کا اعلان کیا، سب نے آپ ﷺ کے اعلان پر لبیک کہا، چناچہ سب روانہ ہو کر حمرارالاسد یا ابوعتبہ کے کنوئیں پر پہنچے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ،“ کہ جن حضرات نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فرمان پر لبیک کہی اور ابوسفیان رسول اکرم ﷺ سے کہہ گیا تھا کہ آئندہ سال میدان بدر میں جدھر تم نے ہمارے ساتھیوں کو مارا تھا مقابلہ ہوگا، چناچہ بزدل تو ڈر کر بھاگ گئے، اور بہادر لڑائی اور تجارت کی تیاری کی وجہ سے چلے گئے۔ غرض یہ کہ جب آپ ﷺ صحابہ کرام ؓ کے ساتھ اس مقام پر پہنچے تو وہاں کوئی بھی نہ ملا، صحابہ کرام ؓ نے اس مقام پر بازار لگایا اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، (آیت) ”فانقلبوبنعمۃ من اللہ“۔ (الخ) اور ابن مردویہ نے ابو رافع سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ کی قیادت میں ایک جماعت ابو سفیان کے تعاقب کے لیے روانہ فرمائی راستہ میں ان کو ایک عرابی ملا اور کہنے لگا مکہ والوں نے تم لوگوں کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیا ہے، انہوں نے کہا (آیت) ”حسبنا اللہ ونعم الوکیل“۔ اللہ تعالیٰ نے اسی طرح ان حضرات کے بارے میں یہ کلمات نازل فرمائے۔
Top