Tafseer-Ibne-Abbas - Aal-i-Imraan : 77
اِنَّ الَّذِیْنَ یَشْتَرُوْنَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَ اَیْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِیْلًا اُولٰٓئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ١۪ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ يَشْتَرُوْنَ : خریدتے (حاصل کرتے) ہیں بِعَهْدِ اللّٰهِ : اللہ کا اقرار وَاَيْمَانِهِمْ : اور اپنی قسمیں ثَمَنًا : قیمت قَلِيْلًا : تھوڑی اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ لَا : نہیں خَلَاقَ : حصہ لَھُمْ : ان کے لیے فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت وَلَا : اور نہ يُكَلِّمُھُمُ : ان سے کلام کرے گا اللّٰهُ : اللہ وَلَا : اور نہ يَنْظُرُ : نظر کرے گا اِلَيْهِمْ : ان کی طرف يَوْمَ الْقِيٰمَةِ : قیامت کے دن وَلَا يُزَكِّيْهِمْ : اور نہ انہیں پاک کرے گا وَلَھُمْ : اور ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
جو لوگ خدا کے اقراروں اور اپنی قسموں (کو بیچ ڈالتے ہیں اور ان) کے عوض تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں ان سے خدا نہ تو کلام کرے گا اور نہ قیامت کے روز ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کو دکھ دینے والا عذاب ہوگا
(77) اب اس قسم کے یہودیوں کا انجام بیان فرماتے ہیں کہ جو لوگ اس عہد کو جو انہوں نے اللہ سے کیا اور اپنی ان قسموں کو جو انبیاء کرام کے ساتھ کھائیں حقیر سے کچھ دنیاوی نفع کے بدلے میں توڑتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے جنت میں کوئی حصہ نہیں اور نہ ان عہد شکن لوگوں سے اللہ تعالیٰ کلام فرمائے گا اور نہ ان پر کسی بھی درجے میں رحمت فرمائے گا اور نہ یہودیت سے ان کو پاک صاف کرے گا اور ان کے لیے ایسا درد ناک عذاب ہوگا کہ اس کی شدت ان کے دلوں تک سرایت کرجائے گی اور کہا گیا کہ یہ آیت کریمہ عبدان بن اشوع اور امرأالقیس کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیوں کہ ان دونوں میں باہمی خصومت (دشمنی) تھی۔ شان نزول : (آیت) ”ان الذین یشترون بعہد اللہ“ (الخ) امام بخاری ؒ ومسلم ؒ نے اشعت ؓ سے روایت کیا ہے کہ میری اور ایک یہودی کی مشترک زمین تھی، اس نے میرا حصہ دینے سے انکار کیا میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے مجھ سے فرمایا کیا تیرے پاس گواہ موجود ہیں، میں نے کہا نہیں پھر آپ نے اس یہودی سے کہا کہ قسم کھا، اس پر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ تو جھوٹی قسم کھا کر میرا بھی حصہ لے جائے گا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح) اور امام بخاری ؒ نے عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص بازار میں سامان لایا اور اللہ کی قسم کھائی کہ وہ جس قیمت پر فروخت کر رہا ہے اس پر دوسرا انہیں دے گا تاکہ مسلمانوں میں سے کوئی اس کی باتوں کے جال میں آجائے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ دونوں حدیثوں میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں، کیوں کہ ممکن ہے کہ دونوں واقعے ایک ساتھ آیت کریمہ کے نزول کا سبب ہوں۔ اور ابن جریر ؒ نے عکرمہ ؒ نے روایت کیا ہے کہ یہ آیت کریمہ یہود میں سے حی بن اخطب اور کعب بن اشرف وغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اللہ تعالیٰ نے توریت میں جو رسول اکرم ﷺ کی تعریف اور صفت بیان فرمائی تھی، ان لوگوں نے اس کو چھپا لیا تھا اور اس میں تبدیلی کر کے قسمیں کھاتے تھے کہ یہی منجانب اللہ ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں اس معنی کا بھی امکان ہے مگر زیادہ صحیح وہی شان نزول ہے جو بخاری میں مروی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top