Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 11
یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ۚ فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ١ۚ وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١ؕ وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ١ۚ فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ١ۚ فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍ١ؕ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّهُمْ اَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا١ؕ فَرِیْضَةً مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًا
يُوْصِيْكُمُ : تمہیں وصیت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ فِيْٓ : میں اَوْلَادِكُمْ : تمہاری اولاد لِلذَّكَرِ : مرد کو مِثْلُ : مانند (برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورتیں فَاِنْ : پھر اگر كُنَّ : ہوں نِسَآءً : عورتیں فَوْقَ : زیادہ اثْنَتَيْنِ : دو فَلَھُنَّ : تو ان کے لیے ثُلُثَا : دوتہائی مَا تَرَكَ : جو چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانَتْ : ہو وَاحِدَةً : ایک فَلَھَا : تو اس کے لیے النِّصْفُ : نصف وَلِاَبَوَيْهِ : اور ماں باپ کے لیے لِكُلِّ وَاحِدٍ : ہر ایک کے لیے مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے السُّدُسُ : چھٹا حصہ 1/2) مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : چھوڑا (ترکہ) اِنْ كَانَ : اگر ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد فَاِنْ : پھر اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهٗ وَلَدٌ : اس کی اولاد وَّوَرِثَهٗٓ : اور اس کے وارث ہوں اَبَوٰهُ : ماں باپ فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا الثُّلُثُ : تہائی (1/3) فَاِنْ : پھر اگر كَانَ لَهٗٓ : اس کے ہوں اِخْوَةٌ : کئی بہن بھائی فَلِاُمِّهِ : تو اس کی ماں کا السُّدُسُ : چھٹا (1/6) مِنْۢ بَعْدِ : سے بعد وَصِيَّةٍ : وصیت يُّوْصِيْ بِھَآ : اس کی وصیت کی ہو اَوْ دَيْنٍ : یا قرض اٰبَآؤُكُمْ : تمہارے باپ وَاَبْنَآؤُكُمْ : اور تمہارے بیٹے لَا تَدْرُوْنَ : تم کو نہیں معلوم اَيُّھُمْ : ان میں سے کون اَقْرَبُ لَكُمْ : نزدیک تر تمہارے لیے نَفْعًا : نفع فَرِيْضَةً : حصہ مقرر کیا ہوا مِّنَ اللّٰهِ : اللہ کا اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
خدا تمہاری اولاد کے بارے میں تم کو ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے اور اگر اولاد میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکے میں انکا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اس کا حصہ نصف۔ اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ۔ (اور یہ تقسیم ترکہ میت کی) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اس نے کی ہو۔ یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمہارے باپ دادوں اور بیٹوں، پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے خدا کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور خدا سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
(11) میراث میں مرد و عورت کے کیا کیا حصے ہیں اب اللہ تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں کہ تمہارے مرنے کے بعد تمہاری اولاد میں میراث کی اس طرح تقسیم ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔ اور اگر دو یا دو سے زیادہ اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو ان کو مال کا دو تہائی ملے گا اور اگر ایک ہی لڑکی چھوڑی تو ترکہ کا آدھا ملے گا اور اگر میت کے لڑکا ہو یا لڑکی کوئی اولاد ہو تو ترکہ میں والدین کا چھٹا حصہ مقرر ہے اور اگر کوئی اولاد ہی نہ ہو تو ایک تہائی ماں کا اور بقیہ ترکہ باپ کا ہے۔ اور اگر میت کے ایک سے زائد بھائی یا بہن ہوں عینی کی طرف سے شریک ہوں یا علاتی، تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ اور باقی باپ کو ملے گا۔ اور واضح رہے یہ تمام حصے میت کا قرض ادا کردینے اور تہائی مال کے اندر اندر جو اس نے وصیت کر رکھی ہے، اس کے نفاذ کے بعد نکالے جائیں گے۔ تم اپنے اصول وفروغ کے بارے میں یہ نہیں جان سکتے کہ کون تم کو دینی یا دنیاوی زیادہ نفع پہنچا سکتا ہے اور میراث کی تقسیم اللہ کی جانب سے فرض کردی گئی ہے، اللہ تعالیٰ تقسیم میراث کو جاننے والا بعد ہر ایک کے حصے متعین کردینے میں بڑی حکمت والا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”یوصیکم اللہ“۔ (الخ) صحاح ستہ نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت نقل کی ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ دونوں پیادہ (پیدل) بنی سلمہ میں میری عیادت کے لیے تشریف لائے، رسول اللہ ﷺ نے تشریف لاکر مجھے ایسی حالت میں پایا کہ میں شدت ہوش میں نہیں تھا آپ نے پانی منگوا کر وضو فرمایا اور مجھ پر اس پانی کا چھینٹا دیا، جس سے مجھے افاقہ ہوا، میں نے عرض کیا کہ میرے حال کے متعلق آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور امام احمد ابوداؤد ؒ ترمذی ؒ اور حاکم ؒ جابر ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ سعد بن ربیع کے گھر میں سے ان کی اہلیہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ یہ دونوں سعد بن ربیع کی دو لڑکیاں ہیں، ان کے والد آپ کے ساتھ غزوہ احد میں شہید ہوگئے اور ان کا چچا ان کا مال لے گیا اور ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا اور اب مال کے بغیر انکی شادی بھی نہیں ہوسکتی آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں ضرور کوئی فیصلہ فرمائیں گے، چناچہ میراث کی آیت نازل ہوئی، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں اس روایت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو اس کے قائل ہیں کہ میراث کی آیت سعد بن ربیع کی لڑکیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور حضرت جابر ؓ کے واقعہ میں نازل نہیں ہوئی، بالخصوص اس وقت تک حضرت جابر ؓ کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی۔ باقی اس کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت دونوں واقعات کے بارے میں نازل ہوئی اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس آیت میراث کا ابتدائی حصہ سعد ؓ کی دونوں لڑکیوں کے بارے میں نازل ہوا ہے اور (آیت) ”وان کان رجل یورث کلالۃ“۔ والا آخری حصہ حضرت جابر ؓ کے واقعہ میں نازل ہوا ہو اور حضرت جابر ؓ کا (آیت) ”یوصیکم اللہ“۔ کے تذکرہ سے یہی مطلب ہو کیوں کہ یہ حصہ اسی حصہ سے متصل ہے۔ ایک تیسرا سبب اور مروی ہے، ابن جریر ؒ نے سدی سے روایت نقل کی ہے کہ زمانہ جاہلیت والے لڑکیوں اور کمزور لڑکوں کو میراث نہیں دیتے تھے اور صرف وہی شخص میراث حاصل کرسکتا تھا، جس میں لڑائی کی طاقت ہو، چناچہ جب حضرت حسان بن ثابت ؓ کے بھائی عبدالرحمن کا انتقال ہوا، انہوں نے ام کمہ نامی ایک بیوی اور پانچ لڑکیاں چھوڑدیں، ورثاء ان کا سارا مال لینے کے لیے آئے، یہ معاملہ دیکھ کر ام کمہ شکایت لے کر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ”فان کن نساء“ (الخ) اور پھر ام کمہ کے بارے میں فرمایا (آیت) ”ولھن الربع مما ترکتم“ (الخ) نیز سعد بن ربیع کا واقعہ ایک اور طریقہ پر بھی مروی ہے، چناچہ قاضی اسماعیل نے احکام القرآن میں عبد الملک بن محمد بن حزم سے نقل کیا ہے کہ عمرۃ بنت حزم سعد بن ربیع کے نکاح میں تھیں۔ حضرت سعد ؓ غزوہ احد میں شہید ہوگئے اور حضرت سعد ؓ کی ان سے ایک لڑکی تھی، یہ رسول اللہ ﷺ کی پاس اپنی لڑکی کی میراث طلب کرنے کے لیے آئیں ان ہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top