Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 142
اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ١ۚ وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى١ۙ یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا٘ۙ
اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ : بیشک منافق يُخٰدِعُوْنَ : دھوکہ دیتے ہیں اللّٰهَ : اللہ وَھُوَ : اور وہ خَادِعُھُمْ : انہیں دھوکہ دے گا وَاِذَا : اور جب قَامُوْٓا : کھڑے ہوں اِلَى : طرف (کو) الصَّلٰوةِ : نماز قَامُوْا كُسَالٰى : کھڑے ہوں سستی سے يُرَآءُوْنَ : وہ دکھاتے ہیں النَّاسَ : لوگ وَلَا : اور نہیں يَذْكُرُوْنَ : یاد کرتے اللّٰهَ : اللہ اِلَّا قَلِيْلًا : مگر بہت کم
منافق (ان چالوں سے اپنے نزدیک) خدا کو دھوکا دیتے ہیں (یہ اس کو کیا دھوکا دیں گے) وہ انہیں کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کے دکھانے کو اور خدا کی یاد ہی نہیں کرتے مگر بہت کم
(142۔ 143) عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی خفیہ طریقہ پر اللہ تعالیٰ کی تکذیب اور اس کے دین کی مخالفت کرتے ہیں اور اپنے زعم میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مکر اور دھوکہ کر رہے ہیں، اس کی سزا قیامت کے دن ان کو مل جائے گی کہ پل صراط پر گزرنے کے وقت ان سے مومنین کہیں گے کہ اپنے پیچھے لوٹ جاؤ اور روشنی تلاش کرو اور یہ لوگ بخوبی جانتے ہوں گے کہ ان کے پاس وہاں روشنی بجھ جائیگی اور لوٹنے کی ان میں طاقت نہ ہوگی۔ اور جب یہ نماز کے لیے آتے ہیں تو بہت سستی کے ساتھ آتے ہیں، جب دوسرے لوگ انھیں دیکھیں تو نماز پڑھ لیتے ہیں ورنہ چھوڑ دیتے ہیں، ریاء اور دکھاوے کے لیے پڑھتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے لیے مخلص ہو کر نماز نہیں پڑھتے ، یہ کفر و ایمان کے بیچ ہیں، دل میں کفر ہے اور منہ سے ایمان کا اظہار کرتے ہیں، نہ ظاہر و باطن میں مسلمانوں کے ساتھ ہیں کہ ان کے لیے وہ چیزیں واجب نہ ہوں جو مسلمانوں کے لیے واجب ہوتی ہیں۔ اور نہ پورے طریقہ سے یہودیوں کے ساتھ ہیں کہ ان پر بھی کہیں وہ احکام نافذ نہ ہوں جو یہودیوں پر ہوتے ہیں جو دین حق سے خفیہ طریقہ پر بےراہ ہوتا ہے تو اسے پھر دین حق کے لیے کوئی راستہ نہیں ملتا۔
Top