Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 3
وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ١ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ
وَاِنْ : اور اگر خِفْتُمْ : تم ڈرو اَلَّا : کہ نہ تُقْسِطُوْا : انصاف کرسکوگے فِي : میں الْيَتٰمٰى : یتیموں فَانْكِحُوْا : تو نکاح کرلو مَا : جو طَابَ : پسند ہو لَكُمْ : تمہیں مِّنَ : سے النِّسَآءِ : عورتیں مَثْنٰى : دو ، دو وَثُلٰثَ : اور تین تین وَرُبٰعَ : اور چار، چار فَاِنْ : پھر اگر خِفْتُمْ : تمہیں اندیشہ ہو اَلَّا : کہ نہ تَعْدِلُوْا : انصاف کرسکو گے فَوَاحِدَةً : تو ایک ہی اَوْ مَا : یا جو مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ : لونڈی جس کے تم مالک ہو ذٰلِكَ : یہ اَدْنٰٓى : قریب تر اَلَّا : کہ نہ تَعُوْلُوْا : جھک پڑو
اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بےانصافی سے بچ جاؤ گے
(3) یہ آیت ایک غطفانی شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے اس کے پاس اپنے یتیم بھیتجے کا بہت مال تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تو گناہ کے ڈر کی وجہ سے صحابہ کرام ؓ بولے ہم یتیموں کو اپنے معاملات ومعاشرت سے علیحدہ کردیتے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت نازل فرمائی، یعنی جیسا کہ اموال یتیم کی حفاظت اور اس میں انصاف نہ کرنے سے ڈرتے ہو، اسی طرح تم عورتوں کے درمیان خرچ اور ان کے حقوق میں پوری طرح انصاف نہ کرسکوگے اور لوگ اس حکم کے نازل ہونے سے پہلے تک جتنی مرضی ہوتی تھی شادیاں کرلیتے تھے، حتی کہ نو اور دس تک بھی یہ تعداد پہنچ جاتی تھی چناچہ قیس بن حارث کے نکاح میں آٹھ عورتیں تھیں، اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرما دی اور چار سے زیادہ شادیاں کرنے کو قطعی طور پر حرام کردیا۔ چناچہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس قدر شادیاں کرنا تمہارے لیے حلال کی گئی ہیں، اس قدر نکاح کرو خواہ ایک نکاح کرو یا دو یا تین یا آخری حد چار شادیاں کرلو، اس سے زیادہ کرنے کی ہرگز اجازت نہیں اور اگر چار عورتوں کے درمیان نفقہ (خرچہ) اور تقسیم میں عدل و انصاف نہیں کرسکتے تو پھر ایک آزاد عورت سے شادی کرو اور اگر ایک کے بھی حقوق ادا نہ کرسکو، تو جو حسب قاعدہ شرعیہ باندی تمہاری ملکیت میں ہے ، (یادر رہے کہ نزول قرآن کے وقت پوری دنیا میں غلامی کا چلن تھا، اسلام نے اس برائی کو معاشرے سے بتدریج ختم کیا، غلاموں وباندیوں کو حقوق دیے انہیں آزاد کرنے کی تلقین کی اور متعدد گناہوں یا لغزشوں کا عوض غلاموں وباندیوں کو آزاد کرنا قرار دیا، آج چونکہ یہ قبیح رواج ختم ہوچکا ہے جو عین منشائے اسلام ہے اور دنیا کی تمام اقوام نے 1948 ء ؁ میں غلامی کی تنسیخ کردی، اب کسی فرد کو کوئی غلام، باندی رکھنے کا حق نہیں ہے، اور نہی ان آیات سے غلامی کے استمرار و دوام کا ثبوت میسر آسکتا ہے، اب افراد کی محنت کو خریدا جاسکتا ہے کسی کو غلام، باندی نہیں بنایا جاسکتا، اور نہ ہی کوئی اپنے کو غلام یا باندی قرار دے سکتا ہے۔) (مترجم) وہ ہی کافی ہے کیوں کہ اس میں نہ تقسیم ہے اور نہ عدت اس پر واجب ہے۔
Top