Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 65
فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا
فَلَا وَرَبِّكَ : پس قسم ہے آپ کے رب کی لَا يُؤْمِنُوْنَ : وہ مومن نہ ہوں گے حَتّٰي : جب تک يُحَكِّمُوْكَ : آپ کو منصف بنائیں فِيْمَا : اس میں جو شَجَرَ : جھگڑا اٹھے بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان ثُمَّ : پھر لَا يَجِدُوْا : وہ نہ پائیں فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ : اپنے دلوں میں حَرَجًا : کوئی تنگی مِّمَّا : اس سے جو قَضَيْتَ : آپ فیصلہ کریں وَيُسَلِّمُوْا : اور تسلیم کرلیں تَسْلِيْمًا : خوشی سے
تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمہیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کردو اس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں بلکہ اس کو خوشی سے مان لیں تب تک مومن نہیں ہوں گے
(65) آپ ﷺ کے پروردگار کی قسم ہے یہ لوگ عنداللہ ہرگز ایمان والے نہیں ہوسکتے جب تک کہ یہ لوگ اپنے باہمی جھگڑوں میں آپ ﷺ سے فیصلہ نہ کروائیں اور آپ ﷺ کے فیصلہ کے بعد ان کے دلوں میں کسی قسم کا کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے اور اس فیصلے کو پوری طرح دل سے تسلیم کرلیں۔ شان نزول : آیت ”۔ فلا وربک لایؤمنون حتی“۔ (الخ) آئمہ ستہ نے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت زبیر ؓ کا ایک شخص سے حرہ کی زمین کی سیرابی کے بارے میں کچھ جھگڑا ہوا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اے زبیر اپنی زمین کو اولا خوب پانی دو اور پھر پانی اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو ، وہ شخص کہنے لگا یہ فیصلہ اس لیے ہے کہ زبیر ؓ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ یہ سن کر حیرت اور غصہ کے مارے آپ ﷺ کے چہرۂ انور کا رنگ تبدیل ہوگیا، آپ نے فرمایا زبیر ! پانی دینے کے بعد روکے رکھو یہاں تک کہ پانی ڈولوں پر سے نکلنے لگے، اس کے بعد اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑو، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے صاف طور پر حضرت زبیر ؓ کو اس کا پورا حق دے دیا اور اس سے پہلے ایسی چیز کی طرف اشارہ فرمایا تھا جس میں دونوں کے لیے سہولت تھی، زبیر ؓ فرماتے ہیں یہ آیتیں اسی واقعہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ طبرائی ؒ نے کبیر میں اور حمیدی ؒ نے اپنی مسند میں ام سلمہ ؓ سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں کہ حضرت زبیر ؓ کا ایک شخص سے جھگڑا ہوا، وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آئے، آپ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کے حق میں فیصلہ فرما دیا، وہ شخص کہنے لگا یہ فیصلہ آپ ﷺ نے اس لیے کیا ہے کہ حضرت زبیر ؓ آپ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ قسم ہے آپ کے پروردگار کی یہ لوگ ایمان دارنہ ہوں گے ، (الخ) نیز ابن ابی حاتم نے سعید بن مسیب ؓ سے فرمان خداوندی (آیت) ”فل اور بک“۔ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت زبیر بن عوام ؓ اور ایک دوسرے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے، دونوں میں پانی کے بارے میں تنازع تھا، رسول اللہ ﷺ نے یہ فیصلہ فرما دیا کہ پہلے بلندی والی زمین کو پانی دیا جائے اس کے بعد نچلی زمین کو۔ اور ابن ابی حاتم ؒ اور ابن مردویہ ؒ نے اسود سے روایت کیا ہے کہ دو شخص رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں جھگڑتے ہوئے آئے، آپ نے دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیا، جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا، وہ کہنے لگا کہ ہم حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس فیصلہ لے کر جائیں چناچہ دونوں حضرت عمر ؓ کے پاس گئے، تو اس کا ساتھی کہنے لگا کہ میرے حق میں رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرما دیا تھا مگر یہ کہنے لگا کہ عمر ﷺ کے پاس ہم فیصلہ لے جائیں حضرت عمر ؓ نے اس دوسرے شخص سے پوچھا کیا ایسا ہی ہے اس نے کہا جی ہاں، حضرت عمر ؓ نے فرمایا اسی جگہ ٹھہرو، میں ابھی آکر تمہارا فیصلہ کردوں گا۔ چناچہ حضرت عمر ؓ ان دونوں کے پاس اپن تلوار سونت کر تشریف لائے اور اس شخص کو جس نے یہ کہا کہ حضرت عمر ؓ سے فیصلہ کروائیں گے، قتل کردیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یہ روایت مرسل غریب ہے۔ اور اس کی سند میں ابن لھیعہ ہے مگر اس روایت کے دیگر شواہد موجود ہیں، اسی روایت کو رحیم نے اپنی تفسیر میں عتبہ بن ضمرہ عن ابیہ کے حوالہ سے روایت کیا ہے
Top