Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 77
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِیْنَ قِیْلَ لَهُمْ كُفُّوْۤا اَیْدِیَكُمْ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ١ۚ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقِتَالُ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ یَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْیَةِ اللّٰهِ اَوْ اَشَدَّ خَشْیَةً١ۚ وَ قَالُوْا رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَیْنَا الْقِتَالَ١ۚ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنَاۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍ١ؕ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ١ۚ وَ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقٰى١۫ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا
اَلَمْ تَرَ : کیا تم نے نہیں دیکھا اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قِيْلَ : کہا گیا لَھُمْ : ان کو كُفُّوْٓا : روک لو اَيْدِيَكُمْ : اپنے ہاتھ وَاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَاٰتُوا : اور ادا کرو الزَّكٰوةَ : زکوۃ فَلَمَّا : پھر جب كُتِبَ عَلَيْهِمُ : ان پر فرض ہوا الْقِتَالُ : لڑنا (جہاد) اِذَا : ناگہاں (تو) فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْھُمْ : ان میں سے يَخْشَوْنَ : ڈرتے ہیں النَّاسَ : لوگ كَخَشْيَةِ : جیسے ڈر اللّٰهِ : اللہ اَوْ : یا اَشَدَّ : زیادہ خَشْيَةً : ڈر وَقَالُوْا : اور وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب لِمَ كَتَبْتَ : تونے کیوں لکھا عَلَيْنَا : ہم پر الْقِتَالَ : لڑنا (جہاد) لَوْ : کیوں لَآ اَخَّرْتَنَآ : نہ ہمیں ڈھیل دی اِلٰٓى : تک اَجَلٍ : مدت قَرِيْبٍ : تھوڑی قُلْ : کہ دیں مَتَاعُ : فائدہ الدُّنْيَا : دنیا قَلِيْلٌ : تھوڑا وَالْاٰخِرَةُ : اور آخرت خَيْرٌ : بہتر لِّمَنِ اتَّقٰى : پرہیزگار کے لیے وَ : اور لَا تُظْلَمُوْنَ : نہ تم پر ظلم ہوگا فَتِيْلًا : دھاگے برابر
بھلا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو (پہلے یہ) حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو (جنگ سے) روکے رہو اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے رہو پھر جب ان پر جہاد فرض کردیا گیا تو بعض لوگ ان میں سے لوگوں سے یوں ڈرنے لگے جیسے خدا سے ڈرا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بڑ بڑانے لگے کہ اے خدا تو نے ہم پر جہاد (جلد) کیوں فرض کردیا ؟ تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی ؟ (اے پیغمبر ﷺ ان سے) کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے اور بہت اچھی چیز تو پرہیزگار کے لئے (نجات) آخرت ہے اور تم پر دھاگے برابر ظلم نہیں کیا جائے گا
(77) یہاں سے اللہ تعالیٰ جہاد کے مشکل گزرنے اور بدر صغری میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ نکلنے کو گراں گزرنے کا ذکر فرماتے ہیں، چناچہ عبدالرحمن بن عوف ؓ سعدبن ابی وقاص ؓ زبیر ؓ قدامۃ بن مظعون ؓ ، مقداد بن اسود کندی ؓ طلحۃ بن عبید اللہ ؓ وغیرہ جب یہ حضرات مکہ مکرمہ میں کفار کی تکالیف سے پریشان ہورہے تھے تو ان سے کہا گیا تھا کہ ابھی لڑنے سے رکے رہو، کیوں کہ مجھے (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابھی اللہ کی طرف سے جہاد کا حکم نہیں ہوا اور ایسے حالات میں مکہ مکرمہ کے ان مظلوم مسلمانوں کو یہ تلقین کی جارہی ہے کہ وہ پانچوں نمازوں کو اوقات کی پابندی کے ساتھ رکوع و سجود کے ساتھ ادا کرتے رہیں، نیز زکوٰۃ بھی دیتے رہیں۔ اور جب مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد اللہ کی طرف ان پر جہاد فرض ہوگیا تو طلحۃ بن عبیداللہ والی جماعت اہل مکہ سے ڈرنے لگی جیسے کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، بلکہ اس سے بھی زیادہ اور دل میں کہنے لگے اے اللہ ابھی جہاد فرض کردیا (یعنی ہم کمزور اور کم تعداد میں ہیں) موت تک ذرا عافیت و اطمینان کے ساتھ رہ لیتے۔ اے محمد ﷺ آپ ان سے فرما دیجیے کہ دنیاوی منافع آخرت کے بےپایاں اجر اعتبار سے بہت کم ہے اور آخرت کے منافع اس شخص کے لیے ہیں جو کفر وشرک اور فحش چیزوں سے بچے ایسی چیزوں سے گریز وبچاؤ ہر اعتبار سے بہتر ہے۔ اور وہاں اللہ کے پاس تمہاری نیکیوں میں دھاگے کے برابر بھی کمی نہیں کی جائے گی، فتیل گٹھلی کے بیچ میں جو لکیر ہوتی ہے یا یہ کہ انگلیوں کے جوڑوں میں جو میل کی لکیر سی ہوجاتی ہے کو کہتے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”الم تر الی الذین قیل۔ (الخ) امام نسائی اور حاکم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ اور ان کے ساتھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم جب شرک کرتے تھے تو ظاہرا عزت دار تھے اور جب ہم ایمان لے آئے تو مختلف دینی پابندیوں کے سبب کفار کے ہاتھوں ذلیل ہوگئے ، (لہذا جہاد کا حکم دیجیے) آپ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے ابھی معاف اور درگزر کرنے کا حکم دیا گیا ہے لہٰذا اپنی قوم سے مت لڑو، چناچہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو مدینہ منورہ منتقل کردیا، تب جہاد کا حکم دیا تو بعض کو دشوار محسوس ہوا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا کہ ان کو یہ کہا گیا تھا الخ۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top