Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 79
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ١٘ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ١ؕ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا
مَآ : جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ حَسَنَةٍ : کوئی بھلائی فَمِنَ اللّٰهِ : سو اللہ سے وَمَآ : اور جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ سَيِّئَةٍ : کوئی برائی فَمِنْ نَّفْسِكَ : تو تیرے نفس سے وَاَرْسَلْنٰكَ : اور ہم نے تمہیں بھیجا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے رَسُوْلًا : رسول وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
(اے آدم زاد) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال کی) وجہ سے ہے اور (اے محمد) ہم نے تم کو لوگوں (کی ہدایت) کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) خدا ہی گواہ کافی ہے
(79) اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے کہ فتح وغنیمت اللہ تعالیٰ کا انعام ہے اور ہزیمت اور قتل وغیرہ یہ اپنی غلطیوں اور مورچہ کو چھوڑنے کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ احد کے دن صحابہ کرام ؓ نے ایک غلط فہمی کی بنا پر مورچہ چھوڑ دیا تھا ، اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ نیکی کا جو کام ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی وجہ سے ہوتا ہے اور برائی نفس کی ترغیبات اور اس کی اطاعت کی وجہ سے ہوتی ہے اور آپ صرف ان مخاطبین کی جانب ہی نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے تمام جن وانس کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ان منافقین کی بات پر کہ خیر منجانب اللہ اور العیاذ باللہ برائی رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی طرف سے ہے، گواہ کافی ہے یعنی روز قیامت اس کا فیصلہ فرمائیں گے اور ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ یہ یہودی کہتے تھے کہ اپنے رسول ہونے پر کوئی گواہ لاؤ، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
Top