Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 88
فَمَا لَكُمْ فِی الْمُنٰفِقِیْنَ فِئَتَیْنِ وَ اللّٰهُ اَرْكَسَهُمْ بِمَا كَسَبُوْا١ؕ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَهْدُوْا مَنْ اَضَلَّ اللّٰهُ١ؕ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهٗ سَبِیْلًا
فَمَا لَكُمْ : سو کیا ہوا تمہیں فِي الْمُنٰفِقِيْنَ : منافقین کے بارے میں فِئَتَيْنِ : دو فریق وَاللّٰهُ : اور اللہ اَرْكَسَھُمْ : انہیں الٹ دیا (اوندھا کردیا) بِمَا كَسَبُوْا : اس کے سبب جو انہوں نے کمایا (کیا) اَتُرِيْدُوْنَ : کیا تم چاہتے ہو اَنْ تَهْدُوْا : کہ راہ پر لاؤ مَنْ : جو۔ جس اَضَلَّ : گمراہ کیا اللّٰهُ : اللہ وَمَنْ : اور جو۔ جس يُّضْلِلِ : گمراہ کرے اللّٰهُ : اللہ فَلَنْ تَجِدَ : پس تم ہرگز نہ پاؤ گے لَهٗ : اس کے لیے سَبِيْلًا : کوئی راہ
تو کیا سبب ہے کہ تم منافقوں کے بارے میں دو گروہ ہو ہے ہو حالانکہ خدا نے ان کو ان کے کرتوتوں کے سبب اوندھا کردیا ہے ؟ کیا تم چاہتے ہو کہ جس شخص کو خدا نے گمراہ کردیا ہے اس کو راستے پر لے آؤ ؟ اور جس شخص کو خدا گمراہ کر دے تم اس کے لیے کبھی بھی راستہ نہ پاؤ گے
(88۔ 89) مسلمانو ! تم ان مرتدین کے باب میں دو گروہ کیوں ہوگئے، ایک گروہ تو ان کے اموال اور خون کو حلال سمجھتا ہے اور دوسرا گروہ اس کو حرام کہتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے نفاق اور نیت کے فتور کی وجہ سے کفر کی طرف واپس پھیر دیا ہے۔ کیا تم ایسے گمراہوں کو دین الہی کی طرف ہدایت کرنا چاہتے ہو، جس کو اللہ تعالیٰ اس کے اعمال بد کے سبب گمراہ کر دے اس کو نہ پھر کوئی دین ملتا ہے اور نہ کوئی دلیل ، (اللہ تعالیٰ جسے گمراہ کردے، یعنی اللہ گمراہ اسے ہی کرتا جو ہدایت کے باب میں اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں کو اپنی بدکرداری وبداعمالی کے سبب ضائع کردے۔ فرمایا (سو جب ان کے دل ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے بھی ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا) (مترجم) وہ منافق تو اس تمنا میں ہیں کہ تم بھی ان کے ساتھ شرک میں شرک ہوجاؤ، ان میں سے دین اور مدد میں کوئی دوستی مت کرنا تاوقتیکہ دوبارہ ایمان نہ لے آئیں اور راہ اللہ میں ہجرت نہ کریں۔ شان نزول : (آیت) ”فمالکم فی المنافقین“۔ (الخ) امام بخاری ؒ ومسلم ؒ وغیرہ نے زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کہ رسول ﷺ احد کے لیے تشریف لے گئے کچھ لوگ جو آپ کے ساتھ روانہ ہوئے تھے، وہ واپس لوٹ گئے تو ان لوٹنے والوں کے بارے میں صحابہ کرام کی دو جماعتیں ہوگئیں، ایک جماعت کہتی تھی کہ ہم ان کو قتل کریں گے اور دوسری جماعت ان کے قتل کی منکر تھی، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی پھر تمہیں کیا ہوا، کہ ان منافقین کے بارے میں تم میں اختلاف رائے ہوا۔ سعید بن منصور اور ابن ابی حاتم نے سعد بن معاذ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کے درمیان خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے تکلیف دیتا ہے اس کی کون سرکوبی کرے گا، یہ سن کر حضرت سعد بن معاذ ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ اگر وہ قبیلہ اوس سے ہوگا تو ہم اس کی گردن اڑا دیں گے اور اگر ہمارے بھائیوں خزرج سے ہوگا تو آپ حکم دیں ہم آپ کی اطاعت کریں گے، یہ سن کر سعد بن عبادہ کھڑے ہوئے اور بولے ابن معاذ ؓ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت میں کیا باتیں کررہے ہو، میں تمہارا مقصد جان چکا ہوں، پھر اسید بن حضیر کھڑے ہوئے اور فرط جذبات میں بولے ابن عبادہ ؓ تم منافق ہو اور منافقین سے محبت رکھتے ہو ، اس کے بعد محمد بن سلمہ نے کھڑے ہو کر کہا، لوگو ! خاموش ہوجاؤ ہمارے درمیان رسول اکرم ﷺ موجود ہیں، آپ جیسا حکم دیں گے، ہم وہ کریں گے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ، اور امام احمد نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں عرب کی ایک جماعت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام قبول کیا ان کو مدینہ منورہ کی آب وہوا سے بخار چڑھ گیا، وہ بیعت توڑ کر مدینہ منورہ سے چلے گئے، صحابہ کرام ؓ کی ایک جماعت نے ان کا تعاقب کیا اور ان سے لوٹنے کا سبب دریافت کیا وہ بولے ہمیں مدینہ منورہ کی وباء لگ گئی ہے، صحابہ کرام ؓ نے فرمایا کیا تمہارے لیے رسول اکرم ﷺ کی ذات بابرکت میں بہترین نمونہ موجود نہیں، غرض کہ ان لوگوں کے بارے میں حضرات کا اختلاف ہوگیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی کہ تم لوگ دو گروہ کیوں ہوگئے۔ اس روایت کی سند میں تدلیس اور انقطاع ہے۔
Top