Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 95
لَا یَسْتَوِی الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَ الْمُجٰهِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ١ؕ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ دَرَجَةً١ؕ وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰى١ؕ وَ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِیْنَ عَلَى الْقٰعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاۙ
لَا يَسْتَوِي : برابر نہیں الْقٰعِدُوْنَ : بیٹھ رہنے والے مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (مسلمان) غَيْرُ : بغیر اُولِي الضَّرَرِ : عذر والے (معذور) وَ : اور الْمُجٰهِدُوْنَ : مجاہد (جمع) فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں فَضَّلَ اللّٰهُ : اللہ نے فضیلت دی الْمُجٰهِدِيْنَ : جہاد کرنے والے بِاَمْوَالِهِمْ : اپنے مالوں سے وَاَنْفُسِهِمْ : اور اپنی جانیں عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے دَرَجَةً : درجے وَكُلًّا : اور ہر ایک وَّعَدَ : وعدہ دیا اللّٰهُ : اللہ الْحُسْنٰي : اچھا وَ : اور فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ الْمُجٰهِدِيْنَ : مجاہدین عَلَي : پر الْقٰعِدِيْنَ : بیٹھ رہنے والے اَجْرًا عَظِيْمًا : اجر عظیم
جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھ رہتے اور لڑنے سے جی چراتے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے اور وہ جو خدا کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے خدا نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں فضیلت بخشی ہے
(95۔ 96) یہاں سے اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے ثواب کو بیان کر رہے ہیں یعنی معذورین جن کو تنگی اور ضعف بدن اور ضعف بصر کی شکایت ہو، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم اور حضرت عبداللہ بن بخش اسدی ان کے علاوہ اور حضرات ان لوگوں کے برابر نہیں جو اپنی جان ومال سے جہاد کرتے ہیں۔ اور مجاہدین اور قاعدین (کی وجہ سے جہاد میں نہ جانے والے ہر ایک کو ایمان پر جنت ملے گی، مگر مجاہدین کو، بغیر عذر کے جہاد نہ کرنے والوں پر جنت میں بہت بلند مقام ملے گا اور ان کو ثواب ومغفرت کے عظیم درجات ملیں گے اور جو جہاد کے لیے روانہ ہو اور نہ روانہ ہونے پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور اسی حالت ندامت و استغفار میں انتقال کر جائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”لا یستوی القاعدون“۔ (الخ) بشارت خداوندی ! امام بخاری ؒ نے براء بن عازب ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ جس وقت (آیت) ”لا یستوی القاعدون“۔ (الخ) یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، فلان کو بلاؤ، چناچہ وہ آئے اور ان کے ساتھ دوات، تختی اور قلم تھا، آپ نے ارشاد فرمایا، کہ آیت لکھو (آیت) ”لایستوی القاعدون من ال مومنین“۔ (الخ) رسول اکرم ﷺ کے پیچھے ابن ام مکتوم موجود تھے، انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں نابینا ہوں تو پھر اللہ کی جانب سے (آیت) ”غیر اولی الضرر“۔ لفظ بھی نازل ہوگیا۔ نیز امام بخاری ؒ نے زید بن ثابت ؓ سے اور طبرانی نے زید بن ارقم سے اور ابن حبان نے فلتان بن عاصم سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور امام ترمذی ؒ نے ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے مگر اس میں اتنا اضافہ ہے کہ عبداللہ بن جحش ؓ اور ابن ام مکتوم ؓ نے عرض کیا کہ ہم دونوں نابینا ہیں۔ اور ابن جریر ؒ نے بہت سے طریقوں سے اسی طرح مرسل روایتیں نقل کی ہیں۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ مجاہدین کے ثواب کو بیان کررہے ہیں یعنی معذورین جن کو تنگی اور ضعف بدن اور ضعف بصر کی شکایت ہو، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن ام مکتوم اور حضرت عبداللہ بن جحش اسدی ان کے علاوہ اور حضرات ان لوگوں کے برابر نہیں جو اپنی جان ومال سے جہاد کرتے ہیں۔ اور مجاہدین اور قاعدین (کی وجہ سے جہاد میں نہ جانے والے ہر ایک کو ایمان پر جنت ملے گی، مگر مجاہدین کو، بغیر عذر کے جہاد نہ کرنے والوں پر جنت میں بہت بلند مقام ملے گا اور ان کو ثواب ومغفرت کے عظیم درجات ملیں گے، اور جو جہاد کے لیے روانہ ہو اور نہ روانہ ہونے پر اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور اسی حالت ندامت و استغفار میں انتقال کرجائے تو اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔
Top