Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nisaa : 9
وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَكُوْا مِنْ خَلْفِهِمْ ذُرِّیَّةً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْهِمْ١۪ فَلْیَتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا
وَلْيَخْشَ : اور چاہیے کہ ڈریں الَّذِيْنَ : وہ لوگ لَوْ تَرَكُوْا : اگر چھوڑ جائیں مِنْ : سے خَلْفِھِمْ : اپنے پیچھے ذُرِّيَّةً : اولاد ضِعٰفًا : ناتواں خَافُوْا : انہیں فکر ہو عَلَيْھِمْ : ان کا فَلْيَتَّقُوا : پس چاہیے کہ وہ ڈریں اللّٰهَ : اللہ وَلْيَقُوْلُوْا : اور چاہیے کہ کہیں قَوْلًا : بات سَدِيْدًا : سیدھی
اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں گے اور ان کو ان کی نسبت خوف ہو (کہ ان کے مرنے کے بعد ان بیچاروں کا کیا حال ہوگا) پس چاہیے کہ یہ لوگ خدا سے ڈریں اور معقول بات کہیں۔
(9۔ 10) اور ان لوگوں کو جو قریب المرض مریض کے پاس ہوتے ہیں اور تہائی مال سے زیادہ وصیت کرنے کا حکم دیتے ہیں، ان کو ان یتیم بچوں کے بارے میں ڈرنا چاہیے کیوں کہ اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر مرجائیں تو ان کو اپنی اولاد کی فکر ہو، اسی طرح ان لوگوں کو مرنے والے کی اولاد کی فکر ہونی چاہیے۔ اور یہ لوگ مریض کے پاس آتے تھے اور اس سے کہتے تھے کہ اپنا مال فلاں کو دے دو اور فلاں کو دے دو اس طریقہ سے اس کا سارا مال خوامخواہ تقسیم کرا دیتے تھے اور اس کے چھوٹے بچوں کے لیے کچھ نہیں رہتا تھا، اللہ تعالیٰ نے اس چیز کی ممانعت فرما دی لہٰذا یہ لوگ جو تہائی مال سے زیادہ مرنے والے کو وصیت کا حکم کرتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے اور بیمار سے انصاف کی بات کرنی چاہیے اور جو بلااستحقاق (بلاضرورت شرعی) یتیم کا مال کھاتے ہیں ان کا حال یہ ہوگا کہ وہ قیامت کے دن اپنے پیٹوں میں دوزخ کے انگارے بھریں گے اور اس کی جلتی آگ کا ایندھن ہوں گے یہ آیت حنظلہ بن شمرو کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top