Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Ghaafir : 56
اِنَّ الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْۤ اٰیٰتِ اللّٰهِ بِغَیْرِ سُلْطٰنٍ اَتٰىهُمْ١ۙ اِنْ فِیْ صُدُوْرِهِمْ اِلَّا كِبْرٌ مَّا هُمْ بِبَالِغِیْهِ١ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يُجَادِلُوْنَ : جھگڑتے ہیں فِيْٓ : میں اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات بِغَيْرِ : بغیر سُلْطٰنٍ : کسی سند اَتٰىهُمْ ۙ : ان کے پاس آئی ہو اِنْ : نہیں فِيْ : میں صُدُوْرِهِمْ : ان کے سینے (دل) اِلَّا : سوائے كِبْرٌ : تکبر مَّا هُمْ : نہیں وہ بِبَالِغِيْهِ ۚ : اس تک پہنچنے والے فَاسْتَعِذْ : پس آپ پناہ چاہیں بِاللّٰهِ ۭ : اللہ کی اِنَّهٗ : بیشک وہ هُوَ السَّمِيْعُ : وہی سننے والا الْبَصِيْرُ : دیکھنے والا
جو لوگ بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو خدا کی آیتوں میں جھگڑتے ہیں ان کے دلوں میں اور کچھ نہیں (ارادہ) عظمت ہے اور وہ اس کو پہنچنے والے نہیں تو خدا کی پناہ مانگو بیشک وہ سننے والا (اور) دیکھنے والا ہے
جو لوگ بلا کسی سند کے جو اللہ کی جانب سے ان کے پاس موجود ہو یعنی یہودی رسول اکرم اور قرآن کریم کے بارے میں جھگڑے نکالا کرتے ہیں۔ اور یہ لوگ رسول اکرم سے دجال کی صفت اور اس بات پر کہ میں خروج دجال کے وقت پھر ان لوگوں کو سلطنت دوں گا اس میں بھی مباحثہ کیا کرتے تھے ان کے دلوں میں صرف اللہ سے برائی ہی برائی ہے اور وہ اس بڑائی تک کبھی نہیں پہنچ سکتے کہ خروج دجال کے وقت پھر ان کو بادشاہت ملے تو آپ دجال کے فتنہ سے اللہ کی پناہ مانگتے رہیں۔ وہ ان یہودیوں کی باتوں کو سننے والا اور ان کو اور ان کے اعمال کو اور خروج دجال اور اس کے فتنہ کو جاننے والا ہے۔ شان نزول : اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ (الخ) ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے کہ یہودی رسول اکرم کی خدمت میں آئے اور دجال کا ذکر کیا اور کہنے لگے وہ آخری زمانہ میں ہوگا اور اس کی حالت کو خوب بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور کہنے لگے کہ وہ ایسا ایسا کرے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو دجال کے فتنہ سے پناہ مانگنے کا حکم دیا اور فرمایا آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا دجال کے پیدا کرنے کی نسبت بڑا کام ہے اور کعب احبار سے اس آیت مبارکہ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ آیات خداوندی سے جھگڑنے والے یہ یہودی ہیں یہ دجال کے نکلنے کے منتظر تھے اسی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔
Top