Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Fath : 2
لِّیَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَ مَا تَاَخَّرَ وَ یُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ یَهْدِیَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاۙ
لِّيَغْفِرَ : تاکہ بخشدے لَكَ اللّٰهُ : آپ کیلئے اللہ مَا تَقَدَّمَ : جو پہلے گزرے مِنْ : سے ذَنْۢبِكَ : آپکے ذنب (الزام) وَمَا تَاَخَّرَ : اور جو پیچھے ہوئے وَيُتِمَّ : اور وہ مکمل کردے نِعْمَتَهٗ : اپنی نعمت عَلَيْكَ : آپ پر وَيَهْدِيَكَ : اور آپ کی رہنمائی کرے صِرَاطًا : راستہ مُّسْتَقِيْمًا : سیدھا
تاکہ خدا تمہارے اگلے اور پچھلے گناہ بخش دے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے اور تم کو سیدھے راستے چلائے
(2۔ 3) تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی سب اگلی یعنی وحی سے پہلے کی اور وحی کے بعد سے رحلت تک کی صورتی خطائیں معاف فرمائے اور تاکہ نبوت و اسلام اور مغفرت کے ذریعے سے آپ پر اپنے احسانات کی اور تکمیل فرما دے اور آپ کو سیدھے رستہ یعنی دین اسلام پر قائم رکھے اور آپ کے دشمنوں پر آپ کو ایسا غلبہ دے جس میں عزت ہی عزت ہو۔ شان نزول : لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ (الخ) امام حاکم وغیرہ نے مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے روایت کیا ہے کہ سورة فتح اول سے آخر تک حدیبیہ کے واقعہ کے بارے میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان نازل ہوئی ہے۔ اور امام بخاری و مسلم اور ترمذی و حاکم نے حضرت انس سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم پر حدیبیہ سے واپسی میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔ اس پر رسول اکرم نے فرمایا مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے جو مجھے تمام روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے پھر آپ نے یہ آیت صحابہ کرام کو سنائی، صحابہ کرام نے کہا یا رسول اللہ، اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو مرتبہ اور فضیلت عطا کی ہے وہ آپ کو مبارک ہو باقی ہمیں اللہ تعالیٰ کیا صلہ دے گا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ لیدخل المومنین (الخ)
Top