Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hujuraat : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ١ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ١ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا يَسْخَرْ : نہ مذاق اڑائے قَوْمٌ : ایک گروہ مِّنْ قَوْمٍ : (دوسرے) گروہ کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُوْنُوْا : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُمْ : بہتر ان سے وَلَا نِسَآءٌ : اور نہ عورتیں مِّنْ نِّسَآءٍ : عورتوں سے ، کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُنَّ : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ : بہتر ان سے وَلَا تَلْمِزُوْٓا : اور نہ عیب لگاؤ اَنْفُسَكُمْ : باہم (ایکدوسرے) وَلَا تَنَابَزُوْا : اور باہم نہ چڑاؤ بِالْاَلْقَابِ ۭ : بُرے القاب سے بِئْسَ الِاسْمُ : بُرا نام الْفُسُوْقُ : گناہ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ : ایمان کے بعد وَمَنْ : اور جو ، جس لَّمْ يَتُبْ : توبہ نہ کی (باز نہ آیا) فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ : وہ ظالم (جمع)
مومنو ! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
اے ایمان والو نہ تو مردوں کو مردوں پر ہنسنا چاہیے، یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے، انہوں نے ایک انصاری شخص کی ماں کا تذکرہ کر کے ان کو عار دلائی تھی جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں ان کو عار دلایا کرتے تھے، اس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اسی طرح اگلی آیت کا حصہ ازواج مطہرات میں سے دو بیویوں کے بارے میں نازل ہوا ہے کہ انہوں نے حضرت ام سلمہ کا مذاق اڑایا تھا اس چیز سے بھی اللہ تعالیٰ نے روک دیا اور نہ عورتوں کو عورتوں پر ہنسنا چاہیے کیا عجب ہے کہ جن پر ہنستے ہیں وہ ان سے ہنسنے والوں سے اللہ کے نزدیک بہتر اور افضل ہوں، اور نہ اپنے مسلمان بھائیوں کی عیب جوئی کرو اور نہ ایک دوسرے کو طعنہ دو اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب اور گالی گلوچ کے ساتھ پکارو۔ کیونکہ ایمان لانے کے بعد مسلمان پر گناہ کا نام لگتا ہی برا ہے جب ایک شخص اسلام لے آیا اور کفر کو چھوڑ دیا پھر اسے یہودی نصرانی مجوسی کہہ کر پکارنا ہی برا اور گناہ کی بات ہے۔ شان نزول : وَلَا تَنَابَزُوْا بالْاَلْقَابِ (الخ) سنن اربعہ نے ابی جبیر بن ضحاک سے روایت نقل کی ہے کہ ہم میں سے ایک شخص کے دو نام تھے اور تیسرا بھی تھا، جب ایک نام لے کر اسے پکارا جاتا تو اسے ناگوار گزرتا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے پکارو۔ امام ترمذی نے فرمایا یہ حدیث حسن ہے۔ اور امام حاکم نے انہیں سے روایت نقل کی ہے کہ جاہلیت میں لوگوں کے لقب تھے، چناچہ رسول اکرم نے ایک شخص کو اس کے لقب کے ساتھ پکارا آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ یہ لقب اسے برا معلوم ہوتا ہے۔ اس پر حق تعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ اور امام احمد نے انہی سے ان الفاظ میں روایت نقل کی ہے کہ ہمارے یعنی بنی سلمہ کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ رسول اکرم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہم میں سے کوئی بھی شخص ایسا نہ تھا کہ جس کے دو یا تین نام نہ ہوں۔ چناچہ جب آپ ان میں سے کسی کو اس کے ان ناموں میں سے کسی نام کے ساتھ پکارتے تھے تو وہ لوگ کہتے یا رسول اللہ وہ اس نام سے غصہ ہوتا ہے تب یہ آیت نازل ہوئی۔
Top