Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hujuraat : 2
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَرْفَعُوْٓا : نہ اونچی کرو اَصْوَاتَكُمْ : اپنی آوازیں فَوْقَ : اوپر، پر صَوْتِ النَّبِيِّ : نبی کی آواز وَلَا تَجْهَرُوْا : اور نہ زور سے بولو لَهٗ : اس کے سامنے بِالْقَوْلِ : گفتگو میں كَجَهْرِ : جیسے بلند آواز بَعْضِكُمْ : تمہارے بعض (ایک) لِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) سے اَنْ : کہیں تَحْبَطَ : اکارت ہوجائیں اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
اے اہل ایمان ! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو
اگلی آیت ثابت بن قیس بن شماس کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس وقت وفد بنی تمیم آیا تو رسو اکرم کے سامنے اونچی آواز میں بات کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے منع کردیا کہ اے ایمان والو یعنی اے ثابت تم اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ آپ سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسا آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر کھل کر بولا کرتے ہو۔ بلکہ تعطیم و توقیر اور احترام کے ساتھ آپ کہہ کر مخاطب کیا کرو یا نبی اللہ یا رسول اللہ وغیرہ الفاظ سے مخاطب کرو، یوں نہ ہو کہ کبھی ترک ادب و احترام نبی اکرم کی وجہ سے تمہارے نیک اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں ان کے برباد ہونے کی خبر بھی نہ ہو۔ شان نزول : لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ (الخ) نیز قتادہ ہی سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ آپ سے زور سے گفتگو کرتے تھے اور آپ کے سامنے آوازیں بلند کرتے تھے ان کے بارے میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
Top