Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hujuraat : 5
وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلَوْ : اور اگر اَنَّهُمْ : وہ صَبَرُوْا : صبر کرتے حَتّٰى : یہاں تک کہ تَخْرُجَ : آپ نکل آتے اِلَيْهِمْ : ان کے پاس لَكَانَ : البتہ ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ ۭ : ان کے لئے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ بنی عنبر کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی واقعہ یہ پیش آیا کہ رسول اکرم نے ان کی طرف ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا اور ان پر عیینہ بن حصن کو امیر بنایا، چناچہ جب یہ لشکر ان کے پاس پہنچا تو یہ سب اپنے اہل و عیال اور اموال چھوڑ کر بھاگ گئے۔ چناچہ ان کی اولاد قید کر کے رسول اکرم کی خدمت میں لائی گئی تو یہ لوگ اس غرض سے مدینہ منورہ آئے کہ فدیہ دے کر اپنی اولاد کو چھڑالیں۔ چناچہ دوپہر آرام کے وقت جبکہ آپ آرام فرما رہے تھے آپ کو حجرے کے باہر سے پکارا کہ محمد ہمارے پاس آؤ، اللہ تعالیٰ نے ان کی اس حرکت کی مذمت فرمائی اور فرمایا اگر یہ لوگ کچھ انتظار کرتے یہاں تک کہ آپ نماز کے لیے خود باہر آجاتے تو آپ خود ان کے بچوں اور عورتوں کو آزاد کردیتے، چناچہ حضور نے ان سے آدھے لوگوں کا فدیہ لیا اور ان کو آزاد کردیا اور اگر یہ لوگ اب بھی توبہ کرلیں تو اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے اسی وجہ سے اس نے فورا سزا نہیں دی۔
Top