Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Maaida : 101
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ١ۚ وَ اِنْ تَسْئَلُوْا عَنْهَا حِیْنَ یُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ تُبْدَ لَكُمْ١ؕ عَفَا اللّٰهُ عَنْهَا١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے لَا تَسْئَلُوْا : نہ پوچھو عَنْ : سے۔ متعلق اَشْيَآءَ : چیزیں اِنْ تُبْدَ : جو ظاہر کی جائیں لَكُمْ : تمہارے لیے تَسُؤْكُمْ : تمہیں بری لگیں وَاِنْ : اور اگر تَسْئَلُوْا : تم پوچھوگے عَنْهَا : ان کے متعلق حِيْنَ : جب يُنَزَّلُ الْقُرْاٰنُ : نازل کیا جارہا ہے قرآن تُبْدَ لَكُمْ : ظاہر کردی جائینگی تمہارے لیے عَفَا اللّٰهُ : اللہ نے درگزر کی عَنْهَا : اس سے وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا حَلِيْمٌ : بردبار
مومنو ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (ان کی حقیقتں) تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔ اور اگر قرآن نازل ہونے کے زمانے میں ایسی باتیں پوچھو گے تو تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (اب تو) خدا نے ایسی باتوں (کے پوچھنے) سے درگزر فرمایا ہے اور خدا بخشنے والا بردبار ہے۔
(101۔ 102) یہ آیت حارث بن یزید کے بارے میں نازل ہوئی کیوں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں پر بیت اللہ کے حج کو فرض کردیا ہے تو انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ کیا ہر ایک سال حج کرنا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ممانعت فرما دی کہ ایسی باتیں مت دریافت کرو جن کو اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت معاف کردیا ہے کیوں کہ اگر ان باتوں کا تمہیں حکم دے دیا جائے تو تمہیں ناگوار گزرے اور جن باتوں کو تم سے معاف کردیا گیا ہے اگر تم زمانہ نزول وحی میں ان باتوں کو دریافت کرو تو تم پر فرض کردی جائیں اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کے لیے غفور اور فضول باتوں کے سوال پر حلیم ہیں۔ ایسی باتیں دیگر امتوں نے بھی اپنے انبیاء کرام سے پوچھی تھیں، جب ان کے انبیاء کرام نے ان باتوں کو ظاہر کردیا تو لوگ ان کا حق نہ بجا لاسکے۔ شان نزول : (آیت) ”یایھا الذین امنوالاتسئلوا عن اشیآء“۔ (الخ) امام بخاری ؒ نے انس بن مالک ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے خطبہ دیا تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ فلاں ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی یعنی اے ایمان والو ایسی باتیں مت پوچھو (الخ) نیز ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ رسول اکرم ﷺ سے بیہودہ سوالات کیا کرتے تھے کوئی پوچھتا کہ میرا باپ کون ہے اور کسی کو اونٹنی گم ہوجاتی تو وہ دریافت کرتا کہ میری اونٹنی کہاں ہے، اس پر ان لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور ابن جریر ؒ بھی ابوہریرہ ؓ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے اور امام احمد، ترمذی اور حاکم نے حضرت علی ؓ سے روایت نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی کہ لوگوں پر بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہر ایک سال حج کرنا فرض ہے، آپ خاموش رہے، پھر عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہر ایک سال ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا نہیں اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر ایک سال حج کرنا فرض ہوجاتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی تائید میں یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والو ایسی باتیں مت دریافت کرو کہ اگر وہ ظاہر کردی جائیں تو اس پر فرمایا نہیں اور اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال حج کرنا فرض ہوجاتا، اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تائید میں یہ آیت نازل فرمائی کہ اے ایمان والوں ایسی باتیں مت دریافت کرو کہ اگر وہ ظاہر کردیں جائے تو ان کی تکمیل ناگوار گزرے اور ابن جریر ؒ نے ابوامامہ ؓ اور ابوہریرہ ؓ اور ابن عباس ؓ سے اسی طرح روایت نقل کی ہے، حافظ بن حجر عسقلانی ؒ فرماتے ہیں کہ اس چیز میں کوئی اشکال نہیں کہ یہ آیت دونوں باتوں کے بارے میں نازل ہوئی ہو مگر حضرت ابن عباس ؓ کی حدیث سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح ہے۔
Top