Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Maaida : 106
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَهَادَةُ بَیْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّةِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِكُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُمْ مُّصِیْبَةُ الْمَوْتِ١ؕ تَحْبِسُوْنَهُمَا مِنْۢ بَعْدِ الصَّلٰوةِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰهِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِهٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ كَانَ ذَا قُرْبٰى١ۙ وَ لَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ١ۙ اللّٰهِ اِنَّاۤ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے شَهَادَةُ : گواہی بَيْنِكُمْ : تمہارے درمیان اِذَا : جب حَضَرَ : آئے اَحَدَكُمُ : تم میں سے کسی کو الْمَوْتُ : موت حِيْنَ : وقت الْوَصِيَّةِ : وصیت اثْنٰنِ : دو ذَوَا عَدْلٍ : انصاف والے (معتبر) مِّنْكُمْ : تم سے اَوْ : یا اٰخَرٰنِ : اور دو مِنْ : سے غَيْرِكُمْ : تمہارے سوا اِنْ : اگر اَنْتُمْ : تم ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ : سفر کر رہے ہو زمین میں فَاَصَابَتْكُمْ : پھر تمہیں پہنچے مُّصِيْبَةُ : مصیبت الْمَوْتِ : موت تَحْبِسُوْنَهُمَا : ان دونوں کو روک لو مِنْۢ بَعْدِ : بعد الصَّلٰوةِ : نماز فَيُقْسِمٰنِ : دونوں قسم کھائیں بِاللّٰهِ : اللہ کی اِنِ : اگر ارْتَبْتُمْ : تمہیں شک ہو لَا نَشْتَرِيْ : ہم مول نہیں لیتے بِهٖ : اس کے عوض ثَمَنًا : کوئی قیمت وَّلَوْ كَانَ : خواہ ہوں ذَا قُرْبٰى : رشتہ دار وَلَا نَكْتُمُ : اور ہم نہیں چھپاتے شَهَادَةَ : گواہی اللّٰهِ : اللہ اِنَّآ : بیشک ہم اِذًا : اس وقت لَّمِنَ : سے الْاٰثِمِيْنَ : گنہ گاروں
مومنو جب تم میں سے کسی کی موت آموجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت (تم مسلمانوں میں) سے دو مرد عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر مسلمان نہ ملیں اور جب تم سفر کر رہے ہو اور اس وقت تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو شخصوں کو گواہ کرلو اگر تم کو ان گواہوں کی نسبت کچھ شک ہو تو ان کو عصر کی نماز کے بعد کھڑا کرو اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں کہ ہم شہادت کا کچھ بھی عوض نہ لیں گے گوہ ہمارا رشتہ دار ہی ہو اور نہ ہم اللہ کی شہادت کو چھپائیں گے اور اگر ایسا کرینگے تو گناہ گار ہونگے
(106) حضر ہو یا سفر مرنے والے کی وصیت کے وقت تم میں سے دو آدمیوں کا وصی ہونا جو کہ آزاد ہوں اور تمہاری قوم میں سے ہوں یا غیر دین یا تمہاری قوم کے علاوہ ہوں یا مقیم نہ ہوں، بلکہ کہیں سفر میں ہوں۔ یہ آیت تین اشخاص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو شام کی طرف سامان تجارت لے کر جارہے تھے ان میں سے ایک بدیل بن ابی ماریہ مولی عمرو بن العاص مسلمان تھے، ان کا انتقال ہوگیا، انہوں نے اپنے ساتھیوں عدی بن بداء اور تمیم بن اوس جو کہ نصرانی تھے، اپنے انتقال کے وقت وصیت کی، مگر ان دونوں نے وصیت میں خیانت کی تو اللہ تعالیٰ میت کے وارثوں سے فرماتے ہیں کہ ان دونوں نصرانیوں کو عصر کی نماز کے بعد روک لو اور ان سے قسم لو، اگر تمہیں اس بات میں شک ہو کہ جتنا میت کا مال انہوں نے پہنچایا ہے مال اس سے زیادہ تھا۔ اور وہ دونوں یہ کہیں کہ ہم اس قسم کے عوض کوئی دنیاوی نفع نہیں لینا چاہتے، اگرچہ مرنے والا ہمارا قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوتا، اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس بات کی باز پرس پر گواہی دینے کا ہمیں حکم ہوا ہے ہم اس کو پوشیدہ رکھیں گے تو ہم گناہگار ہوں گے۔ شان نزول : (آیت) ”یایہا الذین امنو ا شہادۃ“۔ (الخ) امام ترمذی ؒ وغیرہ نے بواسطہ ابن عباس ؓ تمیم داری سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا ہے، میرے علاوہ اور عدی بن بداء کے علاوہ سب نے اس سے جرأت ظاہر کی، یہ دونوں نصرانی تھے، اسلام سے پہلے ملک شام جایا کرتے تھے ، چناچہ اپنی تجارت کے لیے یہ شام گئے اور ان کے پاس بدیل بن ابی مریم مولی بنی سہم بھی آگئے اور ان کے ساتھ ایک چاندی کا جام تھا وہ بیمار ہوئے تو انہوں نے ان دونوں کو وصیت کی اور حکم دیا کہ ان کا ترکہ ان کے وارثوں تک پہنچا دینا تمیم بیان کرتے ہیں کہ ان کے انتقال کے بعد ہم نے اس جام کو لے لیا اور ایک ہزار درہم میں فروخت کرکے وہ قیمت میں نے اور عدی بن بداء نے آپس میں بانٹ لی۔ چناچہ جب ہم ان کے گھروالوں کے پاس آئے تو جو کچھ ان کا سامان ہمارے پاس تھا وہ ہم نے انکودے دیا تو انہوں نے اس جام کو دیکھ کر اس کے بارے میں ہم سے دریافت کیا، ہم نے کہا کہ اس کے علاوہ انہوں نے اور کوئی مال نہیں چھوڑا اور نہ ہمیں دیا ہے، جب میں مشرف باسلام ہوگیا تو مجھے اس کا خوف ہوا، چناچہ میں ان کے گھر والوں کے پاس گیا اور انھیں پورا واقعہ سنا کر پانچ سو درہم ان کو دے دیے اور ان کو بتادیا کہ اتنی اور رقم میرے ساتھی کے پاس بھی موجود ہے، چناچہ وہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ نے ان سے گواہوں کا مطالبہ کیا، وہ گواہ نہ پیش کرسکے، آپ نے انھیں قسم کھانے کا حکم دیا، چناچہ وہ اس کے لیے تیار ہوگئے اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اے ایمان والو تمہارے آپس میں دو شخص وصی ہونا مناسب ہے۔ (الخ)۔ چناچہ حضرت عمر و بن العاص اور ایک شخص نے کھڑے ہو کر قسم کھالی اور پانچ سو بقیہ درہم عدی بن بداء سے نکلوائے۔ فائدہ : حافظ ذہبی نے اس چیز پر اعتماد کیا ہے کہ جس تمیم کا اس روایت میں ذکر ہے وہ تمیم داری نہیں ہیں اور اس چیز کو انہوں مقاتل بن جان کی طرف منسوب کیا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس روایت میں داری کی تصریح کرنا اچھا نہیں۔
Top