Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Maaida : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ یَّبْسُطُوْۤا اِلَیْكُمْ اَیْدِیَهُمْ فَكَفَّ اَیْدِیَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۠   ۧ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے (ایمان والے) اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : اپنے اوپر اِذْهَمَّ : جب ارادہ کیا قَوْمٌ : ایک گروہ اَنْ : کہ يَّبْسُطُوْٓا : بڑھائیں اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اَيْدِيَهُمْ : اپنے ہاتھ فَكَفَّ : پس روک دئیے اَيْدِيَهُمْ : ان کے ہاتھ عَنْكُمْ : تم سے وَاتَّقُوا : اور ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَعَلَي : اور پر اللّٰهِ : اللہ فَلْيَتَوَكَّلِ : چاہیے بھروسہ کریں الْمُؤْمِنُوْنَ : ایمان والے
اے ایمان والو ! خدا نے جو تم پر احسان کیا ہے اس کو یاد کرو جب ایک جماعت نے ارادہ کیا کہ تم پر دست درازی کریں تو اس نے ان کے ہاتھ روک دیئے اور خدا سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو خدا ہی پر بھروسا رکھنا چاہئے۔
(11) نیز رسول اکرم ﷺ اور قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو ! اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو جو اس نے تمہارے دشمنوں کو تم سے دور کرکے تم پر کیا ہے، یاد کرو جب کہ بنی قریظہ نے تم پر دست درازی کا ارادہ کیا تھا اور اوامر خداوندی سے ڈرتے رہو اور اہل ایمان پر یہ لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی پر توکل اور بھروسہ کریں۔ شان نزول : (آیت) ”یا ایھا الذین امنوا اذکروا نعمت اللہ علیکم“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے عکرمہ ؓ اور یزید بن ابی زیاد سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نکلے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، حضرت عثمان، ؓ حضرت علی ؓ ، حضرت طلحہ، ؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ تھے، حتی کہ کعب بن اشرف اور بنی نضیر کے یہودیوں کے پاس پہنچے اور ان لوگوں سے ایک دیت کے بارے میں کچھ مدد کی ضرورت تھی، یہ بدبخت یہودی بولے کہ آپ بیٹھو، ہم آپ کو کھانا کھلاتے ہیں اور جس ضرورت کے لیے آپ آئے ہیں، اسے بھی پورا کرتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ بیٹھ گئے تو حیی بن اخطب نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس موقع سے زیادہ اچھا موقع تمہیں کوئی نہیں ملے گا، العیاذ باللہ آپ رسول ﷺ پر پتھر پھینک کر قتل کردو اور پھر ہمیشہ کی تکلیف ختم ہوجائے گی، چناچہ وہ بہت بڑا پتھر آپ پر پھینکنے کے لیے لے آکر آئے مگر اللہ تعالیٰ نے اس پتھر کو ان کے ہاتھوں میں روکے رکھا یہاں تک کہ جبریل امین ؑ آپ ﷺ کے پاس تشریف لائے اور آپ ﷺ کو اس جگہ سے اٹھالیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، یعنی اس انعام کو بھی یاد کرو جو تم پر ہوا ہے، جب کہ ایک قوم تم پر دست درازی کی فکر میں تھی، الخ۔ نیز عبداللہ بن ابی بکر ؓ عاصم بن عمیر بن قتادہ، مجاہد، عبداللہ بن کثیر، ابومالک سے اسی طرح روایت نقل کی ہے۔ اور قتادہ سے روایت کی ہے فرماتے ہیں کہ ہم سے بیان کیا گیا کہ یہ آیت رسول اللہ ﷺ پر اس وقت نازل کی گئی کہ جب آپ کھجوروں کے ایک باغ میں بسلسلہ ایک جہاد تشریف فرما تھے تو بنو ثعلبہ اور بنومحارب نے آپ پر حملہ کا ارادہ کیا، چناچہ انہوں نے آپ ﷺ کی طرف ایک اعرابی کو روانہ کیا، آپ آرام گاہ پر سو رہے تھے، اعرابی نے تلوار نکال کر نبی ؑ سے کہا کہ آپ ﷺ کو میرے ہاھت سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ ، تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی اور وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا۔ اور ابو نعیم نے دلائل نبوت میں بواسطہ حسن حضرت جابر بن عبداللہ ﷺ سے روایت نقل کی ہے کہ بنی محارب میں سے غورث بن حارث نامی ایک شخص نے کہا کہ تمہارے لیے العیاذ باللہ رسول اکرم ﷺ کو قتل کرتا ہوں، چناچہ وہ رسول اکرم ﷺ کے پاس آیا اور آپ کی تلوار آپ کی گود میں تھی، وہ کہنے لگا محمد ﷺ اپنی تلوار تو دکھائیے، آپ ﷺ نے فرمایا لو، چناچہ اس نے تلوار لے کر سونت لی اور اس کو ہلاک کر اپنے مکروہ ارادے کی تکمیل کرنا چاہی، اچانک اللہ تعالیٰ نے اس کو منہ کے بل گرا دیا اس نے کہا کہ اے محمد ﷺ آپ مجھ سے نہیں ڈرتے، آپ نے فرمایا نہیں، اس نے پھر کہا کہ آپ مجھ سے نہیں ڈرتے حالانکہ تلوار میرے ہاتھ میں ہے، آپ نے فرمایا نہیں، اللہ تعالیٰ میری حفاظت فرماے گا، اس کے بعد اس نے رسول اکرم ﷺ کو تلوار واپس کردی، تب یہ آیت نازل ہوئی ، (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح)
Top