Fahm-ul-Quran - Al-Hijr : 54
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذْ وُقِفُوْا عَلَى النَّارِ فَقَالُوْا یٰلَیْتَنَا نُرَدُّ وَ لَا نُكَذِّبَ بِاٰیٰتِ رَبِّنَا وَ نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَلَوْ : اور اگر (کبھی) تَرٰٓي : تم دیکھو اِذْ وُقِفُوْا : جب کھڑے کیے جائیں گے عَلَي : پر النَّارِ : آگ فَقَالُوْا : تو کہیں گے يٰلَيْتَنَا : اے کاش ہم نُرَدُّ وَ : واپس بھیجے جائیں اور لَا نُكَذِّبَ : نہ جھٹلائیں ہم بِاٰيٰتِ : آیتوں کو رَبِّنَا : اپنا رب وَنَكُوْنَ : اور ہوجائیں ہم مِنَ : سے الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور اگر تم اس وقت کو دیکھ پاتے جب یہ دوزخ کے کنارے پر کھڑے کیے جائیں گے، پس کہیں گے کہ کاش ہم پھر واپس کیے جائیں کہ مانیں اور اپنے رب کی آیات کی تکذیب نہ کریں اور ایمان والوں میں سے بنیں۔
27 تا 28۔ فَقَالُوْا يٰلَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِاٰيٰتِ رَبِّنَا، یہاں تمنی کا جواب فنصدق یا اس کا ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہے اور ولا نکذب اسی محذوف پر معطوف ہے اس وجہ سے مضارع خفیف کی شکل میں آیا ہے۔ اس قسم کے حذف کی مثالیں اس سے پہلے بھی گزر چکی ہیں اور آگے بھی آئیں گی۔ مثالیں نقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے، چونکہ مذکورہ بالا تمنا کے جواب میں فنصدق یا اس کے ہم معنی کسی لفظ کا آنا بالکل واضح تھا اس وجہ سے اس کو حذف کردیا اور ولا نکذب میں جو حرف عطف ہے اس کے ذریعہ سے محذوف کا پتا دے دیا۔ ‘ ولا نکذب ’ کے اظہار میں جو بلاغت ہے وہ یہ ہے کہ اس سے ان کی حسرت کا بھی اظہار ہو رہا ہے اور اعتراف جرم کا بھی۔ یعنی آج تو یہ اکڑ رہے ہیں اور قرآن کو ایک داستانِ پارینہ قرار دے رہے ہیں لیکن کل حسرت کریں گے کہ کاش ہم پھر دنیا میں جائیں کہ اپنے رب کی آیات کی تصدیق کریں اور ان کی تکذیب نہ کریں۔ اجزائے کلام کی وضاحت کے بعد ایک اجمالی نظر ان آیات پر پھر ڈال لیجیے۔ قرآن کی تکذیب کرنے والے سرہنگوں کا انجام : اوپر آیات 21- 24 میں شرک کے سرغنوں کا انجام واضح کیا گیا تھا، زیر بحث آیات میں قرآن کی تکذیب کرنے والے سرہنگوں کا انجام بیان ہورہا ہے۔ فرمایا کہ ان کے کچھ اشرار تمہاری باتیں اور تمہاری پیش کردہ کلام سنتے تو ہیں لیکن سمجھنے اور قبول کرنے کے لیے نہیں بلکہ بحث وجدال کے لیے کہ کوئی ایسی بات ہاتھ آئے جس کو بہانہ بنا کر تم سے کٹ حجتی کرسکیں۔ ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر ان کی بداعمالیوں کے سبب سے مہر ہوچکی ہے اس وجہ سے اب یہ اس کو قبول نہیں کرسکتے۔ یہ نہ خیال کرو کہ ان کی طلب کے مطابق اگر ان کو معجزہ دکھا دیا جائے تو اس کو مان لیں گے اور پھر اس قرآن پر ایمان لائیں گے۔ نہیں، اگر یہ دنیا جہان کے معجزے بھی دیکھ لیں گے جب یہ اسی طرح کٹ حجتی کریں گے اس لیے کہ ان کے انکار اور ان کی تکذیب کی اصل علت جب بھی باقی رہے گی۔ ان کے اندر بات کے سننے اور سمجھنے کا کوئی ارادہ ہی موجود نہیں ہے۔ چناچہ سب کچھ سن کر تمہارے پاس جھگڑنے کے لیے آستینیں چڑھائے ہوئے آتے ہیں اور کہتے ہیں اس قرآن میں رکھا ہی کیا ہے، اگلوں کی داستانیں اور پچھلوں کے فسانے ! ! فرمایا کہ اس طرح یہ دوسروں کو بھی اس سے روک رہے ہیں اور خود بھی اس سے متکبرانہ اعراض کر رہے ہیں لیکن اطمینان رکھو، نہ یہ خدا کا کچھ بگاڑ رہے ہیں نہ تہارا، بلکہ یہ اپنے آپ ہی کو ہلاکت کے گڑھے میں جھونک رہے ہیں لیکن ابھی چونکہ وہ انجام ان کے سامنے نہیں آیا ہے جس سے ان کو خبردار کیا جا رہا ہے ہے اس وجہ سے ان کو اس کا احساس نہیں ہے۔ اگر تم اس وقت کو دیکھ پاتے جب یہ اپنے انجام سے دوچار ہوں گے تو دیکھتے کہ جب یہ دوزخ کے کنارے پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے، اے کاش ہم پر دنیا میں لوٹائے جائیں کہ قرآن کی تصدیق کریں اور اپنے رب کی آیتوں کی تکذیب نہ کریں اور اہل ایمان میں سے بنیں۔ فرمایا کہ وہ اپنے اس اعتراف میں بھی جھوٹے ہیں۔ اگر وہ پھر لوٹائے جائیں تو وہی کریں گے جس سے وہ روکے گئے ہیں اس لیے کہ ان کی تکذیب کی علت یہ نہیں تھی کہ اصل حقیقت ان پر واضح نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ پیغمبر سچا ہے، قرا ان حق ہے، جزا و سزا شدنی ہے لیکن حب دنیا، غرور اور حسد کے حجابات نے ان کی آنکھیں کھلنے نہ دیں، اب اگر دنیا میں جائیں گے تو جس طرح دل کی شہادت کے خلاف پہلے حق کو جھٹلاتے رہے ہیں اسی طرح پھر اس کو جھٹلائیں گے اور اس مشاہدے کو بھی زیادہ سے زیادہ ایک ڈراؤنا خواب قرار دے لیں گے۔
Top