Al-Qurtubi - Al-Hajj : 35
یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ١ۚ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا١ؕ فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ١ؕ بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُؕ
يَوْمَ : جس دن يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ : کہیں گے منافق (مرد) وَالْمُنٰفِقٰتُ : اور منافق عورتیں لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا : ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے انْظُرُوْنَا : دیکھو ہم کو نَقْتَبِسْ : ہم روشنی حاصل کریں مِنْ نُّوْرِكُمْ ۚ : تمہارے نور سے قِيْلَ : کہہ دیا جائے گا ارْجِعُوْا : لوٹ جاؤ۔ پلٹ جاؤ وَرَآءَكُمْ : اپنے پیچھے فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا ۭ : پھر تلاش کرو نور کو فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ : تو حائل کردی جائے گی ان کے درمیان بِسُوْرٍ : ایک دیوار لَّهٗ : اس کا بَابٌ ۭ : ایک دروازہ ہوگا بَاطِنُهٗ : اس کے اندر فِيْهِ : اس میں الرَّحْمَةُ : رحمت ہوگی وَظَاهِرُهٗ : اور اس کے باہر مِنْ قِبَلِهِ : اس کے سامنے سے الْعَذَابُ : عذاب ہوگا
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کا نام لیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور (جب) ان پر مصیبت پڑتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور نماز آداب سے پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے انکو عطا فرمایا ہے اس میں سے (نیک کاموں میں) خرچ کرتے ہیں
اس میں دو مسئلے ہیں۔ مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وجلت قلوبھم یعنی ان کے دل اللہ تعالیٰ کی مخالفت سے ڈرتے ہیں اس کے ذکر کے وقت خوف اور ڈر سے متصف ہوتے ہیں یہ ان کی قوت یقین اور اپنے رب کی طرف توجہ کے سبب ہوتا ہے گویا وہ اس کے سامنے ہیں اور ان کا وصف بیان فرمایا کہ وہ صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اس پر دوام اختیار کرتے ہیں۔ روایت ہے کہ یہ آیت وبشر المخبتین حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت علی ؓ کے بارے میں نازل ہوئی۔ جمہور نے الصلاۃ کو اضافت کی وجہ سے مجرور پڑھا ہے (1) اور ابو عمرو نے الصلاۃ کو نون کے تو ہم کی بنا پر منصوب پڑھا ہے (2) ۔ اسم کی طوالت کی وجہ سے نون کا حذف تخفیف کے لیے ہے۔ سیبویہ نے یہ دلیل دی ہے۔ الحافظوا عورۃ العشیرۃ۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ یہ آیت اس قول کی طرح ہے : انما اللمؤمنون الذین اذا ذکر اللہ وجلت قلوببھم واذا تلیث علیہم ایتہ زادتھم ایماناً وعلی ربھم یتوکلون۔ (الانفال) اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ نزل احسن الحدیث کتبا متشابھا مثانی تقشعر منہ جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبھم الی ذکر اللہ (الزمر :23) یہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والوں اور اس کی سطوطت و عقوبت سے ڈرنے والوں کی حالت ہے نہ کہ جہال عوام اور بدعتیوں کی جو شور مچاتے ہیں اور گدھوں کے ہینگنے کی طرح ہینگتے ہیں۔ پس جو ایساواویلا کرتا ہے اور اس وجد اور خشوع کہا جاتا ہے تو کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت، اس کے خوف اور اس کے جللال میں نبی پاک ﷺ اور اصحاب کی حالت کو نہیں پہنچ سکتا اس کے باوجود وعظ کے وقت وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے خوف سے روتے تھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اہل معرفت کی اس کے ذکر اور قرآن کی تلاوت کے وقت کے احوال کی تعریف کی ہے جو اس کیفیت میں نہیں ہوتا وہ ہدایت اور ان کے راستہ پر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : واذا سمعوا مآ انزل الی الرسول تریٰ اعینھم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق یقولون رببنا امنا فاکتبنا مع الشھدین۔ (المائدہ) یہ ان کے حال کی صفت ہے اور مقال کی حکایت ہے پس جو سنت پر عمل کرنے والا ہے وہ سنت پر عمل کرے اور جو مجانین اور جنون کے احوال کرے تو وہ ان کی بنسبت بری ترین حالت پر ہے جنون فنون ہے۔ صحیح میں حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیے اور سوالوں کی کثرت کی۔ ایک دن آپ نکلے اور منبر پر چڑھے فرمایا : سلنی لا تسألونی عن شی الا بینتہ لکم ما دمت فی مقامی ھذا (3) ۔ مجھ سے پوچھو تم کسی چیز کے بارے سوال نہیں کرو گے مگر میں تمہیں اس کے متعلق بتائوں گا جب تک میں اس جگہ پر کھڑا ہوں۔ جب لوگوں نے یہ سنا تو وہ خاموش ہوگئے اور ڈر گئے کہ کوئی امر آچکا ہے۔ حضرت انس نے فرمایا : میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو ہر انسان اپنا سر اپنے کپڑوں میں چھپائے ہوئے رو رہا تھا (الحدیث) ۔ اس مسئلہ میں گفتگو سورة انفال میں تفصیلاً گزر چکی ہے۔ والحمد للہ۔
Top