Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق (کی طرف) سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہوجائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو (ان سے) پہلے کتابیں دی گئی تھیں پھر ان پر زمان طویل گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں
اب اللہ تعالیٰ دنیا میں جو ان کی قلبی حالت تھی اس کا ذکر فرماتا ہے کہ کیا ظاہرا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے وعدے اور وعید یا یہ یہ کہ توحید خداوندی کے سامنے اور جو اوامرو نواہی حلال و حرام قرآن کریم میں نازل ہوئے ہیں، اس کے سامنے جھک جائیں اور نرم ہوجائیں اور خلوص ان میں پیدا ہوجائے اور توریت والوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو رسول اکرم کی بعثت سے نزول قرآن سے پہلے علم توریت دیا گیا تھا اور پھر ان پر ایک زمانہ گزر گیا جس کی وجہ سے ایمان نہ لانے سے ان کے دل بہت ہی سخت اور گمراہ ہوگئے اسی بنا پر ان توریت والوں میں سے جو کہ دین موسوی کی مخالفت کرنے والے ہیں اکثر علم خداوندی میں کافر ہیں۔ شان نزول : اَلَمْ يَاْنِ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا (الخ) ابن ابی شیبہ نے عبدالعزیز بن ابی روداد سے روایت کیا ہے کہ اصحاب رسول اکرم میں ہنسی و مذاق ظاہر ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن ابی حاتم نے مقاتل بن حیان سے روایت کیا ہے کہ اصحاب نبی اکرم نے کچھ مذاق کیا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ کیا ایمان والوں کے لیے اس بات کا وقت نہیں آیا۔ نیز سدی عن قاسم نے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام ایک مرتبہ پریشان ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ہم سے کچھ بیان کیجیے اس پر یہ آیت نازل نحن نقص علیک احسن القصس۔ پھر دوسری مرتبہ پیرشان ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور ابن مبارک نے کتاب الزہد میں بواسطہ سفیان اعمش سے روایت کیا ہے کہ صحابہ کرام جب مدینہ منورہ آئے تو ان پر سختیوں اور پریشانیوں کے بعد خوش حالی کا زمانہ آیا تو گویا ایسا محسوس ہوا کہ ان کی پچھلی حالت میں کچھ فرق سا آنے لگا اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔
Top