Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Anfaal : 27
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَخُوْنُوا : خیانت نہ کرو اللّٰهَ : اللہ وَالرَّسُوْلَ : اور رسول وَتَخُوْنُوْٓا : اور نہ خیانت کرو اَمٰنٰتِكُمْ : اپنی امانتیں وَاَنْتُمْ : جبکہ تم تَعْلَمُوْنَ : جانتے ہو
اے ایمان والو ! نہ تو خدا اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔ اور تم (ان باتوں کو) جانتے ہو۔
(27) نیز مروان اور ابولبابہ بن عبد المنذر تم لوگ بنی قریظہ کو اس بات کا اشارہ کرکے کہ سعد بن معاذ کے حکم پر مت اترو دین خداوندی میں خلل مت ڈالو اور تم احکام الہی میں جن کی حفاظت تم پر امانت کے طور پر واجب ہے خلل نہ ڈالو اور تم لوگ تو اس خلل کو جانتے ہی ہو۔ شان نزول : (آیت) ”یایھا الذین امنوا لا“۔ (الخ) حضرت سعید بن منصور ؒ نے عبداللہ بن ابی قتادہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ابولبابہ بن عبد المنذر کے متعلق نازل ہوئی، قریضہ والے دن ان سے بنو قریظہ نے پوچھا تھا کہ یہ کیا فیصلہ ہوگا، تو انہوں نے حلق کے اشارے سے بتادیا تھا، کہ گردنیں اڑا دی جائیں گی، تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ابولبابہ ؓ فرماتے ہیں کہ اس اشارہ کے بعد میری قوم اپنی جگہ سے نہیں ہٹی مگر میں نے اچھی طرح جان لیا کہ مجھ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے معاملہ میں خیانت ہوگئی ہے۔ ابن جریرہ ؒ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ابوسفیان مکہ معظمہ سے نکلا تو جبریل امین رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو بتلایا کہ ابوسفیان فلاں جگہ ہے، رسول اکرم ﷺ نے صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان فلاں مقام پر ہے، اس کی طرف چلو اور اس بات کو راز میں رکھو تو منافقین میں سے ایک شخص نے ابوسفیان کو اس بات کی اطلاع کردی کہ محمد ﷺ تمہارے پیچھے آرہے ہیں لہٰذا اپنا بچاؤ کرلو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے حقوق میں دخل اندازی نہ کرو، یہ حدیث بہت غریب ہے اس کی سند اور متن میں کلام ہے، نیز ابن جریر ؒ نے سدی ؒ سے روایت کیا ہے کہ منافقین رسول اکرم ﷺ سے کسی بات کی خبر لگاتے اور پھر اس کو ظاہر کردیتے تھے، مشرکین کو اس کی اطلاع ہوجاتی تھی، اس بات پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
Top