Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Anfaal : 30
وَ اِذْ یَمْكُرُ بِكَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْكَ اَوْ یَقْتُلُوْكَ اَوْ یُخْرِجُوْكَ١ؕ وَ یَمْكُرُوْنَ وَ یَمْكُرُ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ
وَاِذْ : اور جب يَمْكُرُ بِكَ : خفیہ تدبیریں کرتے تھے آپ کے بارہ میں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا (کافر) لِيُثْبِتُوْكَ : تمہیں قید کرلیں اَوْ يَقْتُلُوْكَ : یا قتل کردیں تمہیں اَوْ يُخْرِجُوْكَ : یا نکال دیں تمہیں وَيَمْكُرُوْنَ : اور وہ خفیہ تدبیریں کرتے تھے وَيَمْكُرُ اللّٰهُ : اور خفیہ تدبیریں کرتا ہے اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہترین الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنے والا
اور (اے محمد ﷺ ! اس وقت کو یاد کرو) جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل رہے تھے کہ تم کو قید کردیں یا جان سے مار ڈالیں یا (وطن سے) نکال دیں تو (ادھر تو) وہ چال چل رہے تھے اور (ادھر) خدا چال چل رہا تھا اور خدا سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔
(30) اور جب دارالندوہ میں ابوجہل اور اس کی جماعت کے لوگ آپ کے بارے میں بڑی بڑی تدبیریں سوچ رہے تھے تو عمرو بن ہشام کہنے لگا کہ آپ کو قید کرلیں اور ابوجہل بن ہشام کا مشورہ یہ تھا کہ سب مل کر آپ کو قتل کرڈالیں اور ابو البختری بن ہشام کی رائے تھی کہ آپ کو جلاوطن کردیں۔ اے محمد ﷺ یہ لوگ آپ کو قتل کرنے اور ایذا پہنچانے کے بارے میں اپنی منصوبہ بندی کررہے تھے اور اللہ تعالیٰ بدر کے روز ان لوگوں کے قتل اور نیست ونابود ہوجانے کی سکیم فرما رہے تھے اور سب سے زیادہ اچھی سکیم اور تدبیر کرنے والے اللہ تعالیٰ ہیں۔ شان نزول : (آیت) ”واذ یمکربک الذین“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ قریش کی ایک جماعت اور ہر ایک قبیلہ کے شرفا دار الندوہ میں جانے کے لیے جمع ہوئے، راستہ میں ان کو شیطان ایک بہت بوڑھے شخص کی شکل میں ملا، جب ان لوگوں نے اسے دیکھا تو دریافت کیا کہ تو کون ہے ؟ شیطان بولا کہ میں اہل نجد کا ایک شیخ ہوں، میں نے سنا کہ تم سب لوگ جمع ہورہے ہو تو اس لیے میں بھی آگیا تاکہ میرے مشورہ سے تم محروم نہ ہو، چناچہ یہ ابلیس بھی ان لوگوں کے ساتھ اندر چلا گیا اور جا کر کہنے لگا کہ اچھا اس شخص یعنی رسول اکرم ﷺ کے معاملہ میں غور کرو تو کسی نے کہا کہ ان کو مضبوط بیڑیوں میں قید کرکے ڈال دو ، یہاں تک کہ ان پر مدت گزر جائے تو جیسا کہ پہلے شعرا زھیر اور نابغہ وغیرہ ہلاک ہوئے ہیں یہ بھی ہلاک ہوجائیں گے کیوں کہ یہ بھی ان ہی میں سے ہے۔ ان کی یہ تدبیر سن کر اللہ تعالیٰ کا دشمن نجدی بوڑھا نے کہا یہ تمہاری رائے ٹھیک نہیں کیوں کہ ان کے قید کی جگہ سے ان ساتھیوں تک کوئی سبیل نکل جائے گی، اور وہ سب ایک دم آکر ہجوم کرجائیں گے جس کی وجہ سے تمہارے ہاتھوں سے ان کو لے جائیں گے اور پھر تم سے انکی حفاظت کریں گے اور تم پر وہ اطمینان نہیں کریں گے اور انکو تمہارے شہر سے لے جائیں گے لہٰذا اس کے علاوہ اور کوئی تدبیر سوچو، تو کسی نے کہا ان کو اپنے ہاں سے نکال دو اور ان سے راحت حاصل کروکیون کہ جب وہ تمہارے ہاں سے چلے جائیں گے تو انکی باتیں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ تو یہ نجدی بوڑھا نے کہا خدا کی قسم یہ بھی تمہاری ٹھیک رائے نہیں ہے کیا تم ان کی زبان کی مٹھاس اور سلاست بیان اور دلوں میں اتر جانے والی باتیں نہیں سنتے ہو، خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے ایسا کیا اور محمد ﷺ نے اپنا کلام عرب کے سامنے پیش کیا تو سب عرب ان کے گرد جمع ہوجائیں گے اور پھر سب تم پر حملہ آور ہو کر تمہیں تمہارے شہر سے نکال دیں گے، تمہارے شرفاء کو قتل کردیں گے سب نے اس رائے کو پسند کیا تو بوڑھا کہنے لگا کہ اس کے علاوہ اور کوئی تدبیر سوچو تو ابوجہل کہنے لگا کہ اب میں ایسے رائے پیش کرتا ہوں جو تم میں سے ابھی تک کسی کو نہیں سوجھی اور اس کے علاوہ تم دوسرے رائے بھی پسند نہیں کرو گے، سب نے کہا وہ کیا رائے ہے ؟ ابوجہل کہنے لگا کہ ہر ایک قبیلہ سے ایک دلیر اور بہادر نوجوان کا انتخاب کرلو اور پھر ان میں سے ہر ایک نوجوان کو ایک تلوار دے دو اور اس کے بعد سب مل کر ایک ساتھ (العیاذباللہ) آپ کو قتل کردیں، اس طریقہ سے قتل کرنے میں آپ کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نہیں سمجھتا ہوں کہ اس قبیلہ بنی ہاشم میں پورے قریش سے مقابلہ کی قدرت ہوگی، جب بنی ہاشم یہ مشکل صورتحال دیکھیں گے تو دیت قبول کرلیں گے اور ہمیں ان سے سکون سے مل جائے گا اور ہم سے ان کی تکالیف دور ہوجائیں گی، یہ سن کر نجدی بوڑھا کہنے لگا خدا کی قسم رائے صحیح ہے، اس سے بہتر اور کوئی رائے نہیں ہوسکتی، چناچہ سب اس رائے پر متفق ہو کر چلے گئے۔ دوسری طرف جبریل امین ؑ رسول اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کو حکم دیا کہ جس بستر پر آپ رات کو آرام فرماتے ہیں، آج اس پر آرام نہ فرمائیں اور آپ کی قوم کے مکر سے آپ کو خبردار کیا گیا۔ لہذا رسول اکرم ﷺ نے اس رات اپنے گھر میں آرام نہیں کیا اور اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت کا حکم دیا لہٰذا چناچہ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ پر یہ آیات اتریں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے اس انعام کو جو آپ پر فرما دیا تھا یاد دلارہا ہے یعنی اس واقعہ کا بھی ذکر کریں جب کہ کافر لوگ آپ کے متعلق تدبیریں بنا رہے تھے۔ ابن جریر ؒ نے بواسطہ عبید بن عمیر ؒ ، مطلب بن ابی وداعۃ سے روایت کیا ہے کہ ابو طالب نے رسول اکرم ﷺ سے کہا کہ آپ کی قوم آپ کے بارے میں کیا مشورہ کررہی ہے۔ آپ نے فرمایا وہ مجھے قید کرنے یا قتل کر ڈالنے یا جلاوطن کرنے کی تیاری کررہی ہے، ابوطالب نے کہا کہ آپ کو اس کی کس نے خبردی آپ نے فرمایا میرے اللہ تعالیٰ نے، ابوطالب کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ تو تمہارا ہے ان کو نیکی کے بارے میں کہو آپ ﷺ نے کہا کہ کیا میں اللہ تعالیٰ کو وصیت کروں بلکہ وہ مجھے وصیت فرماتے ہیں، اس پر یہ آیت اتری کہ اس واقعہ کو بھی یاد کیجیے (الخ)۔ حافظ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ ابوطالب کا اس میں ذکر غریب بلکہ منکر ہے کیوں کہ یہ واقعہ ہجرت کی رات کو پیش آیا ہے اور ہجرت ابوطالب کے فوت ہونے کے تین سال بعد ہوئی ہے۔
Top