Tafseer-Ibne-Abbas - At-Tawba : 38
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَا لَكُمْ اِذَا قِیْلَ لَكُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَى الْاَرْضِ١ؕ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوةِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَةِ١ۚ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) مَا لَكُمْ : تمہیں کیا ہوا اِذَا : جب قِيْلَ : کہا جاتا ہے لَكُمُ : تمہیں انْفِرُوْا : کوچ کرو فِيْ : میں سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کی راہ اثَّاقَلْتُمْ : تم گرے جاتے ہو اِلَى : طرف (پر) الْاَرْضِ : زمین اَرَضِيْتُمْ : کیا تم نے پسند کرلیا بِالْحَيٰوةِ : زندگی کو الدُّنْيَا : دنیا مِنَ : سے (مقابلہ) الْاٰخِرَةِ : آخرت فَمَا : سو نہیں مَتَاعُ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا فِي : میں الْاٰخِرَةِ : آخرت اِلَّا : مگر قَلِيْلٌ : تھوڑا
مومنو ! تمہیں کیا ہوا ہے کہ جب تم سے کہا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں (جہاد کے لئے) نکلو تو تم (کاہلی کے سبب سے) زمین پر گرے جاتے ہو ؟ یعنی گھروں سے نکلنا نہیں چاہتے کیا تم آخرت کی نعمتوں کو چھوڑ کر دنیا کی زندگی پر خوش ہو بیٹھے ہو دنیا کی زندگی کے فائدے تو آخرت کے مقابل بہت ہی کم ہیں۔
(38۔ 39) اے جماعت صحابہ کرام ؓ تمہیں کیا ہوا کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ اطاعت خداوندی یعنی غزوہ تبوک میں جاؤ تو تم زمین پر لگے جاتے ہو کیا تم لوگوں نے آخرت کے بدلے دنیاوی زندگی پر قناعت کرلی ہے حقیقت میں دنیاوی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں، یعنی اگر تم اپنے نبی کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لیے نہ نکلے تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت میں سخت سزا دیں گے اور تمہارے بجائے تم سے بہترین اور زیادہ اطاعت کرنے والی قوم پیدا کرے گا، اور تمہارا جہاد کے لیے نہ نکلنا دین الہی کو کچھ نقصان نہیں پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ عذاب دینے اور تبدیل کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ شان نزول : یایھا الذین امنوا مالکم اذا قیل لکم“۔ (الخ) ابن جریر ؒ نے مجاہد ؒ سے روایت کیا ہے کہ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب فتح مکہ اور حنین کے بعد غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔ گرمیوں کے زمانہ میں جب پھل پک رہے تھے اور سایوں کی حاجت تھی اس وقت جہاد میں جانے کا حکم ہوا تو ان کو ذرا مشکل لگا تو یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی کہ تھوڑے سامان سے اور زیادہ سامان سے نکل کھڑے ہو۔ شان نزول : (آیت) ”الا تنفروا“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے نجرہ بن تفیع ؒ سے روایت کیا ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس آیت کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو آپ ؒ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے قبائل عرب کو جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا تو ان پر گراں گزرا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لہٰذا بارش بند ہوگئی اور یہی ان کا عذاب تھا۔
Top