Tafseer-Ibne-Abbas - At-Tawba : 50
اِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِیْبَةٌ یَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ وَ یَتَوَلَّوْا وَّ هُمْ فَرِحُوْنَ
اِنْ : اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے حَسَنَةٌ : کوئی بھلائی تَسُؤْهُمْ : انہیں بری لگے وَاِنْ : اور اگر تُصِبْكَ : تمہیں پہنچے مُصِيْبَةٌ : کوئی مصیبت يَّقُوْلُوْا : تو وہ کہیں قَدْ اَخَذْنَآ : ہم نے پکڑ لیا (سنبھال لیا) تھا اَمْرَنَا : اپنا کام مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے وَيَتَوَلَّوْا : اور وہ لوٹ جاتے ہیں وَّهُمْ : اور وہ فَرِحُوْنَ : خوشیاں مناتے
(اے پیغمبر ﷺ اگر تم کو آسائش حاصل ہوتی ہے تو انکو بری لگتی ہے۔ اور اگر کوئی مشکل پڑتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا کام پہلے ہی (درست) کرلیا تھا۔ اور خوشیاں مناتے لوٹ جاتے ہیں۔
(50) اگر آپ ﷺ کو غزوہ بدر کی طرح فتح وغنیمت پیش آتی ہے تو وہ ان منافقین کے لیے غم کا سبب ہوتی ہے اور اگر آپ ﷺ پر غزوہ احد کی طرح قتل وہزیمت کا کوئی حادثہ آپڑتا ہے تو یہ منافقین یعنی عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اس حادثہ کے پیش آنے سے پہلے ہم نے ساتھ نہ دے کر اپنی حفاظت کرلی تھی اور یہ کہہ کر غزوہ احد کے دن رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کو جو حادثہ پیش آیا، خوشی خوشی جہاد سے واپس چلے آتے ہیں۔ شان نزول : ان تصبک حسنۃ تسؤھم“۔ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جو منافقین مدینہ منورہ میں رہ گئے تھے اور انہوں نے جہاد میں شرکت نہیں کی تھی وہ لوگوں کو نعوذ باللہ رسول اکرم ﷺ کی طرف سے بری بری خبریں بیان کرتے تھے اور اس بات کی اشاعت کرتے تھے کہ نعوذ باللہ رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ سفر میں بہت ہی مشقت میں پڑگئے اور ہلاک ہوگئے جب ان لوگوں کی تکذیب اور رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی عافیت معلوم ہوگئی تو ان لوگوں کو بہت شاق اور ناگوار گزار اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔
Top