Tafseer-Ibne-Abbas - At-Tawba : 74
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْا١ؕ وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ وَ هَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا١ۚ وَ مَا نَقَمُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖ١ۚ فَاِنْ یَّتُوْبُوْا یَكُ خَیْرًا لَّهُمْ١ۚ وَ اِنْ یَّتَوَلَّوْا یُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ عَذَابًا اَلِیْمًا١ۙ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ مَا لَهُمْ فِی الْاَرْضِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّ لَا نَصِیْرٍ
يَحْلِفُوْنَ : وہ قسمیں کھاتے ہیں بِاللّٰهِ : اللہ کی مَا قَالُوْا : نہیں انہوں نے کہا وَلَقَدْ قَالُوْا : حالانکہ ضرور انہوں نے کہا كَلِمَةَ الْكُفْرِ : کفر کا کلمہ وَكَفَرُوْا : اور انہوں نے کفر کیا بَعْدَ : بعد اِسْلَامِهِمْ : ان کا (اپنا) اسلام وَهَمُّوْا : اور قصد کیا انہوں نے بِمَا : اس کا جو لَمْ يَنَالُوْا : انہیں نہ ملی وَ : اور مَا نَقَمُوْٓا : انہوں نے بدلہ نہ دیا اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ کہ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ : انہیں غنی کردیا اللہ وَرَسُوْلُهٗ : اور اس کا رسول مِنْ : سے فَضْلِهٖ : اپنا فضل فَاِنْ : سو اگر يَّتُوْبُوْا : وہ توبہ کرلیں يَكُ : ہوگا خَيْرًا : بہتر لَّهُمْ : ان کے لیے وَاِنْ : اور اگر يَّتَوَلَّوْا : وہ پھرجائیں يُعَذِّبْهُمُ : عذاب دے گا انہیں اللّٰهُ : اللہ عَذَابًا : عذاب اَلِيْمًا : دردناک فِي : میں الدُّنْيَا : دنیا وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت وَمَا : اور نہیں لَهُمْ : ان کے لیے فِي الْاَرْضِ : زمین میں مِنْ : کوئی وَّلِيٍّ : حمایتی وَّلَا : اور نہ نَصِيْرٍ : کوئی مددگار
یہ خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے (تو کچھ) نہیں کہا حالانکہ انہوں نے کفر کا کلمہ کہا ہے اور یہ اسلام لانے کے بعد کافر ہوگئے ہیں اور ایسی بات کا قصد کرچکے ہیں جس پر قدرت نہیں پا سکے اور انہوں نے (مسلمانوں میں) عیب ہی کونسا دیکھا ہے سوا اس کے کہ خدا نے اپنے فضل سے اور اس کے پیغمبر ﷺ نے (اپنی مہربانی سے) ان کو دولتمند کردیا ہے ؟ تو اگر یہ لوگ توبہ کرلیں تو ان کے حق میں بہتر ہوگا اور اگر منہ پھیر لیں تو خدا ان کو دنیا اور آخرت میں دکھ دینے والا عذاب دیگا۔ اور زمین میں ان کا کوئی دوست اور مددگار نہ ہوگا۔
(74) جلاس بن سوید نے اللہ کی قسم کھائی کہ میرے متعلق عامر بن قیس نے جو بات پہنچائی ہے وہ میں نے نہیں کہی حالانکہ یقیناً انھوں نے کفر کی بات کہی تھی کیوں کہ جس وقت رسول اکرم ﷺ کا ذکر مبارک کیا گیا تو منافقین نے عیب جوئی کی اور کہا کہ اللہ کی قسم محمد ﷺ جو کچھ ہمارے بھائیوں میں باتیں بیان کرتے ہیں اگر آپ ان میں سچے ہیں تو ہم گدھوں سے زیادہ بدتر ہیں۔ جلاس بن سوید کی اس بات کی عامر بن قیس نے رسول اکرم ﷺ کو اطلاع دی تو اس نے اللہ کی قسم کھا کر کہا کہ میں نے کچھ نہیں کہا چناچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کی تکذیب کی کہ یقیناً اس نے کفر کی بات کہی ہے اور عیاذ باللہ انہوں نے رسول اکرم ﷺ کو قتل کرنے اور آپ کو جلاوطن کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر ان کا بس نہ چل سکا ، اور انہوں نے رسول اکرم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کو صرف اس بات کا بدلہ دیا ہے کہ ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مال غنیمت سے مالدار کردیا، اگر اب بھی یہ کفر ونفاق سے باز آجائیں اور توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا۔ اور اگر یہ لوگ توبہ سے روگردانی کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو دردناک سزا دے گا اور نہ ان کا کوئی محافظ ہے اور نہ ان کی سزا کو کوئی ان سے ٹال سکتا ہے۔ شان نزول : (آیت) ”یحلفون باللہ ما قالوا“ (الخ) ابن ابی حاتم ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ جلاس بن سوید بن صامت نے غزوہ تبوک میں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ شرک نہیں کی تھی اور اس نے کہا تھا کہ اگر یہ شخص یعنی نبی کریم ﷺ سچا ہو تو ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں، عمیر بن سعید نے اس چیز کی رسول اکرم ﷺ کو اطلاع کردی، جلاس نے اللہ کی قسم کھائی کہ میں نے یہ بات نہیں کہی اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی وہ لوگ قسمیں کھاجاتے ہیں کہ ہم نے فلاں بات نہیں کہی۔ الخ۔ جلاس بن سوید نے توبہ کرلی تھی اور ان کی توبہ بھی قبول ہوئی، نیز کعب بن مالک ؓ سے اسی طرح روایت کیا گیا ہے اور ابن سعد نے طبقات میں اسی طرح عروہ سے روایت کیا ہے۔ اور ابن ابی حاتم ؒ نے حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ خطبہ دے رہے تھے اس دوران حضرت زید بن ارقم نے منافقوں میں سے ایک شخص سے سنا کہ وہ کہہ رہا تھا کہ اگر رسول اکرم ﷺ سچے ہوں تو ہم گدھوں سے زیادہ بدتر ہیں، رسول اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ کے پوچھنے پر اس کہنے والے نے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ نیز ابن جریر ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ ایک درخت کے سایہ میں تشریف رکھتے تھے، آپ نے فرمایا عنقریب تمہارے پاس ایسا شخص آئے گا جو شیطان کی دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہے، چناچہ اتنے میں ایک نیلی آنکھوں والا شخص آیا، آپ نے اسے بلایا اور فرمایا کہ تو اور تیرے ساتھی مجھے کیوں برا کہتے ہیں۔ یہ سن کر وہ شخص چلا گیا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر آیا، سب نے آکر قسمیں کھانی شروع کردیں کہ ہم نے ایسا نہیں کیا، چناچہ آپ نے انکو معاف کردیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ نیز حضرت قتادہ ؓ سے اسی طرح روایت کی گئی ہے کہ ود آدمی آپس میں لڑے، ایک ان میں سے قبیلہ جہینہ کا تھا اور دوسرا غفار کا اور جہینہ والے انصار کے حلیف تھے، غفاری جہنی پر غالب آگیا، اس پر عبداللہ بن ابی نے قبیلہ اوس سے کہا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو، اللہ کی قسم، ہماری اور محمد ﷺ کی مثال اس قاتل کے قول کی طرح کہ تیرے کتے کی قیمت تجھ کو کھاگئی اگر ہم مدینہ منورہ لوٹ آئے تو ہم میں سے عزیز ذلیل کو نکال دے گا۔ یہ موشگافی سن کر مسلمانوں میں سے ایک شخص دوڑ کر رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا آپ نے یہ سن کر ابن ابی منافق کے پاس آدمی بھیجا اور اس اس سے دریافت کیا وہ اللہ کی قسمیں کھانے لگا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ اور طبرانی ؒ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ اسود نامی ایک شخص نے نعوذ باللہ رسول اللہ ﷺ کے قتل کا ارادہ کیا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی (آیت) وھموا بمالم ینالوا“۔ (الخ) اور جریر ؒ اور ابوالشیخ ؒ نے حضرت عکرمہ ؒ سے روایت کی ہے کہ مولی بن عدی بن کعب نے ایک انصاری شخص کو قتل کرڈالا، اس پر رسول اکرم ﷺ نے دیت ادا کرنے کے لیے بارہ ہزار درہم دینے کا فیصلہ فرمایا، تب یہ آیت نازل ہوئی۔
Top