Tafseer Ibn-e-Kaseer - An-Nahl : 3
خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ تَعٰلٰى عَمَّا یُشْرِكُوْنَ
خَلَقَ : اس نے پیدا کیے السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَالْاَرْضَ : اور زمین بِالْحَقِّ : حق (حکمت) کے ساتھ تَعٰلٰى : برتر عَمَّا : اس سے جو يُشْرِكُوْنَ : وہ شریک کرتے ہیں
اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی برحکمت پیدا کیا۔ اس کی ذات ان (کافروں) کے شرک سے اونچی ہے
عالم علوی اور سفلی کا خالق اللہ کریم ہی ہے۔ بلند آسمان اور پھیلی ہوئی زمین مع تمام مخلوق کے اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اور یہ سب بطور حق ہے نہ بطور عبث۔ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزا ہوگی۔ وہ تمام دوسرے معبودوں اور مشرکوں سے بری اور بیزار ہے۔ واحد ہے، لا شریک ہے، اکیلا ہی خالق کل ہے۔ اسی لئے اکیلا ہی سزا وار عبادت ہے۔ انسان حقیر و ذلیل لیکن خالق کا انتہائی نافرمان ہے۔ اس نے انسان کا سلسلہ نطفے سے جاری رکھا ہے جو ایک پانی ہے۔ حقیر و ذلیل یہ جب ٹھیک ٹھاک بنادیا جاتا ہے تو اکڑفوں میں آجاتا ہے رب سے جھگڑنے لگتا ہے رسولوں کی مخالفت پر تل جاتا ہے۔ بندہ تھا چاہئے تو تھا کہ بندگی میں لگا رہتا لیکن یہ تو زندگی کرنے لگا۔ اور آیت میں ہے اللہ نے انسان کو پانی سے بنایا اس کا نسب اور سسرال قائم کیا۔ اللہ قادر ہے رب کے سوا یہ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں جو بےنفع اور بےضرر ہیں کافر کچھ اللہ سے پوشیدہ نہیں۔ سورة یاسین میں فرمایا کیا انسان نہیں دیکھتا کہ ہم نے اسے نطفے سے پیدا کیا پھر وہ تو بڑا ہی جھگڑالو نکلا۔ ہم پر بھی باتیں بنانے لگا اور اپنی پیدائش بھول گیا کہنے لگا کہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا ؟ اے نبی ﷺ تم ان سے کہہ دو کہ انہیں وہ خالق اکبر پیدا کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا وہ تو ہر طرح کی مخلوق کی پیدائش کا پورا عالم ہے۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں کہ حضور ﷺ نے اپنی ہتھیلی پر تھوک کر فرمایا کہ جناب باری فرماتا ہے کہ اے انسان تو مجھے کیا عاجز کرسکتا ہے میں نے تو تجھے اس تھوک جیسی چیز سے پیدا کیا ہے جب تو زندگی پا گیا تنومند ہوگیا لباس مکان مل گیا تو لگا سمیٹنے اور میری راہ سے روکنے ؟ اور جب دم گلے میں اٹکا تو تو کہنے لگا کہ اب میں صدقہ کرتا ہو، اللہ کی راہ میں دیتا ہوں۔ بس اب صدقہ خیرات کا وقت نکل گیا۔
Top