Tafseer Ibn-e-Kaseer - Al-Israa : 33
وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ١ؕ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّهٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مَنْصُوْرًا
وَ : اور لَا تَقْتُلُوا : نہ قتل کرو النَّفْسَ : جان الَّتِيْ : وہ جو کہ حَرَّمَ اللّٰهُ : اللہ نے حرام کیا اِلَّا : مگر بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ وَمَنْ : اور جو قُتِلَ : مارا گیا مَظْلُوْمًا : مظلوم فَقَدْ جَعَلْنَا : تو تحقیق ہم نے کردیا لِوَلِيِّهٖ : اس کے وارث کے لیے سُلْطٰنًا : ایک اختیار فَلَا يُسْرِفْ : پس وہ حد سے نہ بڑھے فِّي الْقَتْلِ : قتل میں اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : ہے مَنْصُوْرًا : مدد دیا گیا
اور جس کا جاندار کا مارنا خدا نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر (یعنی بفتویٰ شریعت)۔ اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیئے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ وہ منصورو فتحیاب ہے
ناحق قتل بغیر حق شرعی کے کسی کو قتل کرنا حرام ہے۔ بخاری مسلم میں ہے جو مسلمان اللہ کے واحد ہونے کی اور محمد ﷺ کے رسول ہونے کی شہادت دیتا ہو اس کا قتل تین باتوں کے سوا حلال نہیں۔ یا تو اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا شادی شدہ ہو اور پھر زنا کیا ہو یا دین کو چھوڑ کر جماعت کو چھوڑ دیا ہو۔ سنن میں ہے ساری دنیا کا فنا ہوجانا اللہ کے نزدیک ایک مومن کی قتل سے زیادہ آسان ہے۔ اگر کوئی شخص ناحق دوسرے کے ہاتھوں قتل کیا گیا ہے تو اس کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ نے قتل پر غالب کردیا ہے۔ اسے قصاص لینے اور دیت لینے اور بالکل معاف کردینے میں سے ایک کا اختیار ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اس آیت کریمہ کے عموم سے حضرت معاویہ کی سلطنت پر استدلال کیا ہے کہ وہ بادشاہ بن جائیں گے اس لئے کہ حضرت عثمان ؓ انتہائی مظلومی کے ساتھ شہید کئے گئے تھے۔ حضرت معاویہ ؓ قاتلان حضرت عثمان ؓ کو حضرت علی ؓ سے طلب کرتے تھے کہ ان سے قصاص لیں اس لئے کہ یہ بھی اموی تھے اور حضرت عثمان ؓ بھی اموی تھے۔ حضرت علی ؓ اس میں ذرا ڈھیل کررہے تھے۔ ادھر حضرت علی ؓ کا مطالبہ حضرت معاویہ ؓ سے یہ تھا کہ ملک شام ان کے سپرد کردیں۔ حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں تاوقتیکہ آپ قاتلان عثمان ؓ کو نہ دیں میں ملک شام کو آپ کی زیر حکومت نہ کروں گا چناچہ آپ نے مع کل اہل شام کے بیعت علی ؓ سے انکار کردیا۔ اس جھگڑے نے طول پکڑا اور حضرت معاویہ ؓ شام کے حکمران بن گئے۔ معجم طبرانی میں یہ روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے رات کی گفتگو میں ایک دفعہ فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک بات سناتا ہوں نہ تو وہ ایسی پوشیدہ ہے، نہ ایسی علانیہ حضرت عثمان ؓ کے ساتھ جو کچھ کیا گیا، اس وقت میں نے حضرت علی ؓ کو مشورہ دیا کہ آپ یکسوئی اختیار کرلیں، واللہ اگر آپ کسی پتھر میں چھپے ہوئے۔ ہوں گے تو نکال لئے جائیں گے لیکن انہوں نے میری نہ مانی۔ اب ایک اور سنو اللہ کی قسم معاویہ تم پر بادشاہ ہوجائیں گے، اس لئے کہ اللہ کا فرمان ہے، جو مظلوم مار ڈالا جائے، ہم اس کے وارثوں کو غلبہ اور طاقت دیتے ہیں۔ پھر انہیں قتل کے بدلے میں قتل میں حد سے نہ گزرنا چاہئے الخ۔ سنو یہ قریشی تو تمہیں فارس و روم کے طریقوں پر آمادہ کردیں گے اور سنو تم پر نصاری اور یہود اور مجوسی کھڑے ہوجائیں گے اس وقت جس نے معروف کو تھام لیا اس نے نجات پا لی اور جس نے چھوڑ دیا اور افسوس کہ تم چھوڑنے والوں میں سے ہی ہو تو مثل ایک زمانے والوں کے ہوؤگے کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں ہلاک ہوگئے۔ اب فرمایا ولی کو قتل کے بدلے میں حد سے نہ گزر جانا چاہئے کہ وہ قتل کے ساتھ مثلہ کرے۔ کان، ناک، کاٹے یا قتل کے سوا اور سے بدلہ لے۔ ولی مقتول شریعت، غلبے اور مقدرت کے لحاظ سے ہر طرح مدد کیا گیا ہے۔
Top